میجر لاریب قتل کیس: موقعے پر موجود لڑکی کے پولی گراف ٹیسٹ کا فیصلہ

اب تک درجنوں عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں، لیکن بیانات میں تضادات کے باعث ہمارا خیال ہے کہ یہ قتل ڈکیتی کا نتیجہ نہیں تھا: پولیس

میجر لاریب حسن کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی 122 لانگ کورس سے تھا (تصویر: قریبی دوست)

گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں قتل ہونے والے میجر لاریب حسن گِل کی ہلاکت کے معاملے میں عینی شاہدین کے بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں، جب کہ قتل کے وقت موقعے پر موجود لڑکی کے پولی گراف ٹیسٹ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

واقعے کی تفتیش کرنے والے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک درجنوں عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

ایک پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بیانات میں انہی تضادات کے باعث ہمارا خیال ہے کہ یہ قتل ڈکیتی کا نتیجہ نہیں تھا۔‘

ایس ایس جی کمانڈو میجر لاریب حسن گِل کو جمعہ (22 نومبر)کو سیکٹر جی نائن کے ایک پارک میں دو افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

واقعے کے وقت میجر لاریب کے ساتھ ان کی خاتون دوست بھی موجود تھیں، جنہیں واقعے کے اگلے روز گرفتار کرکے عدالت سے ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا۔

مقتول فوجی افسر کی دوست نے پولیس کو بتایا تھا کہ دو افراد ڈکیتی کی غرض سے ان کے پاس آئے اور ان میں سے ایک شخص نے میجر لاریب پر گولی چلا دی، جو ان کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

تاہم پولیس حکام کا خیال ہے کہ میجر لاریب پر گولی چلانے والوں کا واحد مقصد ڈکیتی نہیں ہو سکتا۔

ایک پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ڈکیتی کے لیے آنے والے لوگ اپنے شکار سے نقدی اور قیمتی اشیا ضرور لے کر جاتے ہیں اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ لیکن میجر لاریب پر گولی چلانے والوں نے ان کی جیبوں میں موجود نقدی یا موبائل فون لینے کی کوشش بھی نہیں کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ پولیس افسر کے مطابق: ’خاتون عینی شاہد کے بیانات میں کافی تضادات ہیں۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا پولی گراف ٹیسٹ کیا جائے۔‘

ایک دوسرے پولیس اہلکار نے بتایا کہ دیگر عینی شاہدین اور خاتون کے بیانات میں بھی تضادات پائے جاتے ہیں۔

عینی شاہد خاتون جو ایک نجی ایئر لائن میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے اختتام پر منگل کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، تاہم عدالت نے پولیس کی مزید ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے خاتون کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کی رہائی کے باوجود انہیں پولی گراف ٹیسٹ کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔

پولیس حکام کچھ دوسرے عینی شاہدین کا بھی پولی گراف ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔

میجر لاریب حسن کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی 122 لانگ کورس سے تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے میجر لاریب اس سے قبل وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا حصہ تھے۔ اُن کے کورس میٹ اُنہیں جنگ کا ’غازی‘ پکارتے تھے۔ ان دنوں میجر لاریب کی پوسٹنگ اٹک شہر میں تھی اور وہ اسلام آباد کسی کام کی نوعیت سے آئے تھے۔

ڈی آئی جی آپریشن سید وقار الدین نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور جلد ہی سراغ مل جائے گا۔ ’یہ ایک قتل ہے اور اس کو ایک قتل کے معاملے کی طرح ہی جانچا جا رہا ہے۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان