جنوبی انڈیا کے ایک ساحلی قصبے جو اپنے سرسبز پہاڑوں اور روحانی مراکز کے لیے مشہور ہے، کے برسات میں ہونے والی بارشوں میں بھیگے ہوئے جنگلات میں، ایک روسی خاتون اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ایک غار میں رہائش پذیر پائی گئیں جہاں وہ بالکل الگ تھلگ زندگی گزار رہی تھیں۔ غار میں بجلی اور دوسری سہولتیں دستیاب نہیں۔
انڈیا کی ریاست کرناٹک کی رام تیرتھ پہاڑیوں کے بارش سے بھیگے ہوئے راستوں پر گشت کرنے والے پولیس اہلکاروں نے قبل ازیں رواں ماہ ایک عجیب منظر دیکھا جب انہیں غار کے دھانے پر کپڑے کا پردہ لگا ہوا دکھائی دیا اور اس میں سے سنہری بالوں والی چھوٹی سی بچی پہاڑ میں بنے سوراخ سے نکل کر ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی نظر آئی۔
پولیس کے مطابق مذکورہ خاتون کی شناخت 40 سالہ نینا کتینا کے نام سے ہوئی، جنہوں نے جنگل میں کافی اندر جا کر اپنی پانچ اور چھ برس کی بیٹیوں کے ساتھ یہ ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔ اس خاندان کے پاس انڈیا میں قیام کے لیے کوئی قانونی ویزا یا دستاویزات نہیں تھیں۔
پولیس افسر سری دھر ایس آر نے تصدیق کی کہ یہ خاندان ایک ہفتے سے زائد عرصے سے اس غار میں مقیم تھا۔
حکام اب کتینا کو روس واپس بھیجنے کے انتظامات کر رہے ہیں کیوں کہ وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باوجود انڈیا میں مقیم تھیں۔ انہیں اور ان کی بیٹیوں کو غیر قانونی طور پر انڈیا میں رہائش پذیر غیر ملکیوں کے لیے قائم حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔
کتینا نے جنگل میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا ہے کہ وہ جنگل میں صحت مند اور خوش تھیں۔ اب وہ ریاستی دارالحکومت بنگلورو کے قریب واقع ایک حراستی مرکز میں ہیں اور ملک بدر کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔
کتینا کا معاملہ اب مہم جوئی، والدین کے حقوق، افسر شاہی اور بین الاقوامی قانونی رکاوٹوں کی داستان بن چکا ہے۔
جنگل میں اتفاقاً دریافت ہونے والا ٹھکانہ
سیاحتی مرکز گوا کے قریب واقع گوکرنا جنگل میں پہاڑی تودے گرنے کے خطرات کے باعث حکام نے جنگل میں گشت بڑھا دیا تھا اور اسی گشت کے دوران نو جولائی کو یہ ٹھکانہ دریافت ہوا۔ جس غار میں کتینا ملیں وہ جنگل کے اندر موجود تھا اور وہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے اسے اپنا گھر بنائے ہوئے تھیں۔
پولیس نے جب انہیں جنگل میں رہنے کے خطرات کے بارے میں آگاہ کیا تو کتینا نے غار چھوڑنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
پولیس افسر سری دھر ایس آر نے کہا کہ ’یہ ان کی مہم جوئی سے محبت ہی تھی جو انہیں یہاں تک لے آئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کتینا نے پولیس کو بتایا کہ وہ گوا میں روسی زبان کی ٹیوشن پڑھاتی رہی ہیں اور اس غار میں انہوں نے موم بتی کی روشنی میں مراقبہ کرتے، اپنی بچیوں کو کھانا کھلاتے، مصوری کرتے ، گاتے اور کتابیں پڑھتے ہوئے وقت گزارا۔
کتینا نے جنگل میں زندگی گزارنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا: ’ہم مر نہیں رہے تھے، اور میں اپنی بچیوں کو جنگل میں مرنے کے لیے نہیں لائی۔ انہیں وہاں کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ بہت خوش تھیں، وہ آبشار میں تیراکی کرتیں، اچھی جگہ پر سوتیں اور آرٹ کے بہت سے سبق لیتی تھیں۔ ہم نے مٹی سے چیزیں بنائیں، تصویریں بنائیں، اچھا کھانا کھایا۔ میں گیس پر بہت اچھا اور مزیدار کھانا پکاتی تھی۔‘
کتینا کا کہنا ہے کہ وہ تہذیب سے زیادہ دور نہیں رہ رہے تھے۔ انہوں نے یہ مقام اس لیے چنا کیوں کہ یہ ایک گاؤں کے بہت قریب ہے جہاں سے وہ ضروری اشیا خریدتی تھیں۔
’یہ ایک بہت بڑا اور خوب صورت غار ہے۔ یہ چھوٹا نہیں، بلکہ اس میں سمندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی جیسی جگہ بھی ہے۔‘
نینا کتینا کون ہیں؟
روسی نژاد کتینا نے انڈین خبر رساں اداروں کو بتایا کہ انہوں نے گذشتہ 15 برس سے روس میں رہائش اختیار نہیں کی۔ انہوں نے بہت زیادہ سفر کیا۔ انہوں نے کوسٹا ریکا، بالی، تھائی لینڈ، ملائیشیا، یوکرین اور نیپال کا سفر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے چار بچے تھے، جن میں سے ایک بیٹا گذشتہ سال گوا میں ایک سڑک حادثے میں چل بسا۔ ان کا دوسرا 11 سالہ بیٹا روس میں رہتا ہے۔
جنگل میں مبینہ طور پر ان کے ساتھ رہنے والے دونوں بچیوں کے والد ڈرور گولڈسٹین ہیں، جو ایک اسرائیلی تاجر ہیں اور اس وقت انڈیا میں مقیم ہیں۔ گولڈسٹین نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کتینا ان بچیوں کو لے کر انہیں اطلاع دیے بغیر گوا سے چلی گئیں جس کے بعد انہوں نے پولیس میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔
گولڈسٹین اب بچیوں کی مشترکہ تحویل حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور حکومت کے انہیں روس واپس بھیجنے کے منصوبے کے مخالف ہیں۔
#GokarnaPolice of #uttarakannada found a #Russianwoman #Nina_Kutina and her daughters aged #6and4years living in a #cave in a forest, Her #Visa had expired way back in 2017 and was #overstaying. She has been referred to #FRROfor deportation.#pramod #gokarna pic.twitter.com/XsF2U8CxqB
— Pramod (@pramodankolaVK) July 12, 2025
پولیس کے مطابق غار سے برآمدگی کے بعد کتینا نے اپنے دوستوں کو طویل اور جذباتی پیغام بھیجا۔ اس میں انہوں نے حکام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو زبردستی پرسکون اور قدرتی ماحول سے نکال کر ایک ایسے مرکز میں پہنچا دیا گیا جو قید خانے کی طرح ہے۔
انہوں نے لکھا: ’اور ہمیں ایسے قید خانے میں ڈال دیا گیا جہاں نہ آسمان ہے، نہ گھاس ہے، نہ آبشار ہے، اور جس کی ٹھنڈی اور سخت زمین پر اب ہمیں ’بارش اور سانپوں سے بچتے ہوئے‘ سونا پڑ رہا ہے۔‘
’ہماری پوری زندگی میں وہاں کبھی کسی سانپ نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا۔ کسی جانور نے ہم پر حملہ نہیں کیا۔ کئی برس تک ہمیں صرف انسانوں سے ڈر لگتا رہا۔‘
انہوں نے انسانوں پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ انسان واحد ایسی مخلوق ہیں جو ’غیر فطری انداز‘ میں پیش آتے ہیں۔
’مجھے انسانوں کی دنیا سے تکلیف پہنچی جہاں مناسب تعلیم نہ رکھنے والوں کو ایسے عہدے دیے جاتے ہیں جو انہیں دوسروں کی زندگیوں، یہاں تک کہ پورے خاندانوں پر اختیار دیتے ہیں۔‘
’وہ حقیقی تجربے اور علم کی بجائے محض اپنے خوف، بچگانہ کہانیوں، افواہوں اور بزدلی کی بنیاد پر خوفناک ’ناانصافیاں‘ کرتے ہیں۔
ان لوگوں کی غار کی زندگی
جس وقت پولیس کو یہ تینوں ملے، ان کے پاس ذاتی سامان کی محض اشیا تھیں جن میں پلاسٹک کی چٹائیاں، چند کپڑے، کھانے پکانے کا کچھ سامان اور انسٹنٹ نوڈلز کے پیکٹ شامل تھے۔ وہاں نہ بجلی تھی نہ پانی، لیکن کتینا کا کہنا ہے کہ وہ مطمئن تھے۔ ان کے دن قریب واقع آبشار میں تیراکی کرتے، سادہ کھانے پکاتے اور مٹی اور قدرتی اشیا سے فن پارے بناتے ہوئے گزرتے تھے۔
ان کے غار کا داخلی راستہ رنگ برنگی ساڑھیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
پولیس کی بنائی گئی ویڈیوز میں بچیاں مسکراتی ہوئی اور رنگ برنگے انڈین لباس پہنے نظر آ رہی ہیں۔ وہ بظاہر پرسکون اور خوش لگ رہی ہیں۔ کتینا نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ گاؤں سے باقاعدگی سے سامان خریدتی تھیں اور اپنی بیٹیوں کو کھانے پینے اور مصروف رکھنے کا پورا خیال رکھتی تھیں۔
کتینا کا کہنا ہے کہ ان کا جنگل میں قیام روحانیت کی خاطر نہیں بلکہ فطرت کی محبت میں تھا۔ تاہم غار سے ہندو دیوتا کرشن کے اوتار پانڈورنگا وٹھلا کی مورتی بھی ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ روحانیت کے لیے نہیں۔ یہ اس کے لیے نہیں۔ ہمیں فطرت سے پیار ہے کیوں کہ اس نے ہمیں صحت دی۔‘
اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بچیوں نے اب تک کسی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔
کتینا کا دعویٰ ہے کہ وہ روسی ادب و فن کی تربیت یافتہ استاد ہیں اور باقاعدہ دستاویزات کے ساتھ اپنی بچیوں کو گھر میں ہی تعلیم دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان سرگرمیوں کے ذریعے پیسے کماتی ہوں۔ اگر کوئی کام نہ ہو تو میرے بھائی، والد یا بیٹا میری مدد کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے پاس اپنی ضرورت کی ہمیشہ کافی رقم ہوتی ہے۔‘
خاتون کی قانونی حیثیت
کتینا کب اور کس طرح انڈیا داخل ہوئیں یا دوبارہ آئیں، یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔
پولیس کو ان کا ایک پرانا پاسپورٹ ملا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزنس ویزے پر اکتوبر 2016 میں انڈیا آئیں، جس کی میعاد اپریل 2017 میں ختم ہو گئی۔ انہوں نے اضافی مدت کے لیے قیام کیا اور 2018 میں گوا کے فارنرز رجسٹریشن آفس نے انہیں ملک سے باہر جانے کا اجازت نامہ دیا۔
وہ 19 اپریل 2018 کو نیپال اور دیگر مقامات گئیں اور تین ماہ بعد دوبارہ انڈیا لوٹ آئیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ کم از کم 2020 سے انڈیا میں مقیم ہیں، لیکن امیگریشن کا کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں۔
ان کے بقول انہوں نے ’کم از کم 20 ممالک کا سفر کیا‘ جن میں سے چار ممالک میں وہ 2018 میں انڈیا چھوڑنے کے بعد گئیں۔
کتینا کہتی ہیں کہ ویزے کی میعاد ختم ہونا غیر ارادی تھا اور یہ ان کے بیٹے کی موت کے غم کے باعث ہوا۔ ’ہمارا ویزا ختم ہو گیا۔ میں بہت غم زدہ تھی اور ویزے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘