پاکستان میں رواں برس 3 ارب روپے کا آن لائن فراڈ، 255 غیر ملکی گرفتار

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’آن لائن فراڈ میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد ملوث پائی گئی ہے۔‘

پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار ہونے والے غیر ملکی شہریوں کو عدالت میں پیشے کے بعد واپس لے جایا جا رہا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں برس تین ارب روپے کا آن لائن فراڈ ہوا ہے جس میں مقامی باشندوں کے ساتھ 255 غیر ملکی شہری بھی شامل تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’آن لائن فراڈ میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد ملوث پائی گئی ہے۔‘

این سی سی آئی اے  کے فراہم کردہ دستاویز کے مطابق صرف اسلام آباد سے 183 غیر ملکی باشندوں کو آن لائن فراڈ کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران آن لائن فراڈ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں کچھ فراڈ کرنے والے وٹس ایپ گروپس چلاتے تھے جہاں لوگوں کو چھوٹے کام جیسے مختلف ٹک ٹاک اور یوٹیوب چینلز کو سبسکرائب کروانے کے ذریعے سرمایہ کاری میں ملوث کرتے، پھر بڑی رقم لگانے کی طرف راغب کرتے تھے۔

کراچی میں بھی ایک آن لائن قرض سکیم بھی پکڑی گئی جس میں غیر ملکی شہریوں کے ڈیٹا کا غلط استعمال کرکے پیسے چراۓ گئے تھے۔

یہ سب کیسز بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غیر ملکی باشندے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے فراڈ میں شامل ہو رہے ہیں، خاص طور پر کال سینٹرز اور سوشل میڈیا گروپس کا استعمال کرتے ہوئے۔

چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان کے زیر صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں منگل کو سائبر فراڈ سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔

اجلاس میں این سی سی آئی اے نے انکشاف کیا کہ سائبر فراڈ کے ذریعے پاکستانیوں کے تقریبا تین ارب روپے نکال لیے گئے ہیں جبکہ دنیا بھر میں تقریباً 20 کھرب ڈالرز آن لائن فراڈ کے ذریعے نکالے گئے ہیں۔

این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ وہ رقم ہے جو رپورٹ ہوئی ہے لیکن اصل فراڈ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان کے ادارے کے پاس درج کی گئیں شکایات میں سے تقریبا 60 فیصد آن لائن فراڈ کی ہیں جبکہ ان جرائم میں مقامی افراد سے زیادہ غیر ملکی شہری ملوث ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ رواں برس تاحال 63 کال سینٹرز پر چھاپے مارے گئے جو غیر قانونی طور پر کام کر رہے تھے اور اس معاملہ سے متعلق 54 ایف آئی آر درج کی گئیں۔

ایاز خان نے بتایا کہ آن لائن فراڈ سے منسلک واقعات میں 255 غیر ملکی شہریوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ 195 پاکستانیوں بھی گرفتار کیے گئے۔ گرفتار کیے گئے افراد سری لنکن، نیپالی اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندے ہیں۔

دوسری جانب این سی سی آئی اے کے اعلی عہدے دار وقارالدین نے کمیٹی کو بتایا ملک میں قائم کئی کال سینٹرز بیرون ممالک کام کر رہے ہیں اور بیشتر کال سینٹرز کی جغرافیائی حدود نہیں ہیں۔

انہوں نے آن لائن فراڈ میں غیر ملکی شہریوں کے ملوث ہونے سے متعلق کہ یہ شہری پاکستان میں ٹیکنالوجی لے کر آتے ہیں۔

انڈپینڈٹ اردو کو حاصل تفصیلات کے مطابق اس ضمن میں صرف اسلام آباد میں 183 غیر ملکی شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے علاوہ 10 مقامی افراد کو دارالحکومت سے گرفتار کیا گیا۔

جولائی 2025 میں فیصل آباد میں ایک بڑے کال سینٹر کا سراغ لگایا گیا جہاں 149 افراد گرفتار ہوئے تھے جن میں 71 غیر ملکی شامل تھے اور ان میں اکثریت چینی شہریوں کی تھی۔

یہ مرکز جعلی سرمایہ کاری اور پونزی سکیمز چلاتا تھا جس میں فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام گروپس کے ذریعے لوگوں سے فراڈ کیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ لاہور سے 23، سندھ کے شہر کراچی سے 44 اور راولپنڈی سے 32 مقامی افراد کو آن لائن فراڈ کے سلسلے میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

منگل کو اجلاس کے دوران این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائیریکٹر ایاز خان نے بریفنگ دیتے ہوئے مزید بتایا کہ شہریوں کو موبائل نمبر پر کوڈز موصول ہونے کا کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں بینک کا نمائندہ یا کوریئر سروس کا اہلکار بن کر کال کی جاتی ہے۔

ایاز خان نے کہا کہ ’ملک میں واٹس ایپ ہیکنگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘

’کوڈ بھیجنے کے بعد شہریوں کی آئی ڈی ہیک کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر وٹس ایپ آئی ڈی تقریبا 12 گھنٹوں تک ہیک کی جا سکتی ہے۔ اور بعد ازاں شہریوں سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔‘

اجلاس کے بعد این سی سی آئی اے کے عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’آن لائن فراڈ میں چینی باشندے بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔‘ تاہم انہوں نے ان کی تعداد بتانے سے گریز کیا۔

دوسری جانب سٹار لنک سے متعلق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سٹارلنک نے ایک ڈی آئی کا لائسنس اپلائی کیا ہوا ہے، سٹار لنک کو لائسنس سے پہلے پاکستان سپیس ایکٹیویٹی ریگولیٹری بورڈ سے رجسٹریشن اور سکیورٹی کلیئرنس کرانا ہوگی۔

بعد ازاں قائمہ کمیٹی نے سٹار لنک کے معاملہ پر آئندہ اجلاس میں پاکستان سپیس ایکٹیویٹی ریگولیٹری بورڈ کے حکام کو بلانے کا فیصلہ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان