پاکستان میں کچرے کا نظام اور غیر رسمی ری سائیکلنگ

پاکستان میں جہاں ایک طرف سرکاری نظام کچرے کا 30 سے 40 فیصد حصہ جمع کرنے میں ناکام ہے، وہیں دوسری طرف ایک متوازی، غیر رسمی معیشت موجود ہے جو اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

پانچ جون 2025 کو لاہور کے مضافات میں کچرے کے ڈھیر پر بچے دوبارہ استعمال کیے جانے والے مواد کی تلاش کر رہے ہیں (عارف علی / اے ایف پی)

پاکستان جیسے تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی، بے ہنگم شہری توسیع اور بدلتے ہوئے طرزِ زندگی نے شہری کچرے کے انتظام کو ایک سنگین چیلنج بنا دیا ہے۔

یہ مسئلہ محض سڑکوں اور گلیوں کی صفائی تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے سماجی، ماحولیاتی اور اقتصادی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس کا سامنا کئی دہائیوں سے ہے اور اس نے شہروں کی ترقی اور شہریوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں ٹھوس کچرے کی پیداوار کے تازہ ترین اعدادوشمار مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ حکومت کے اندازوں کے مطابق، ملک میں سالانہ تقریباً 4.96 کروڑ ٹن ٹھوس کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں ہر سال 2.4 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق کچرے کی سالانہ پیداوار ساڑھے چار کروڑ ٹن ہے۔ اعدادوشمار میں یہ فرق بذاتِ خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی سطح پر کچرے کی پیداوار کا کوئی مستند، مربوط اور تازہ ترین ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے پالیسی سازی اور وسائل کی تخصیص میں شدید رکاوٹیں آتی ہیں۔ جب بنیادی اعدادوشمار ہی غیر یقینی ہوں تو طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

شہری علاقوں میں کچرے کی پیداوار دیہی علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بڑے شہر کچرے کے ڈھیروں کی شکل میں اس چیلنج کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کراچی یومیہ ساڑھے 16 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جبکہ لاہور ساڑھے سات ہزار سے کچھ زیادہ، فیصل آباد پانچ ہزار، راولپنڈی ساڑھے چار ہزار، پشاور دو ہزار اور کوئٹہ 716 ٹن۔

کچرے کی ساخت کا تجزیہ ایک اور اہم حقیقت کو اجاگر کرتا ہے جو اس مسئلے کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے کچرے کی ساخت میں 30 فیصد کھانے کا فضلہ، 18 فیصد راکھ، اینٹ اور مٹی اور نو فیصد پلاسٹک شامل ہے۔ اورگینک مواد کا یہ بڑا تناسب، جو کہ اسلام آباد میں کل کچرے کا تقریباً 76.71 فیصد ہے، بایو گیس یا کھاد بنانے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔

تاہم، جب اس قیمتی اورگینک کچرے کو پلاسٹک اور دیگر غیر اورگینک مواد کے ساتھ ملا کر جمع کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف ری سائیکلنگ کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتا ہے بلکہ ویسٹ ٹو انرجی جیسے منصوبوں کی ناکامی کا بھی باعث بنتا ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک میں کئی ویسٹ ٹو انرجی پلانٹس کو غیر فعال کر دیا ہے کیونکہ وہ مخلوط اور گیلے کچرے کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کر سکتے۔ اس طرح، کچرے کو گھر کی سطح پر ہی الگ کرنا نہ صرف ایک ماحولیاتی ذمہ داری ہے بلکہ ایک اقتصادی ضرورت بھی ہے۔

پاکستان میں کچرے کے انتظام کا مسئلہ صرف پیداوار کی شرح سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے انتظامی، قانونی اور عوامی رویے کی کئی ناکامیاں کارفرما ہیں۔ بلدیاتی اداروں کا نظام اس بوجھ کو اٹھانے میں ناکام نظر آتا ہے۔ شہروں میں کچرے کا اوسطاً صرف 60 سے 70 فیصد حصہ ہی جمع کیا جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ سڑکوں اور کھلی جگہوں پر گلتا سڑتا رہتا ہے۔ اسلام آباد، جہاں صفائی کا نظام نسبتاً بہتر ہے، تقریباً 80 فیصد کچرا ہی جمع کیا جاتا ہے۔ کچرا جمع کرنے کے لیے استعمال ہونے والے فرسودہ ذرائع، جیسے کھلے ٹرک، ٹریکٹر ٹرالی اور ہاتھ گاڑیاں، ناکافی اور غیر معیاری ہیں۔

اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ مناسب لینڈفل سائٹس کا فقدان ہے۔ پاکستان میں چند ہی شہروں میں باقاعدہ سینیٹری لینڈفل سائٹس موجود ہیں۔ اسلام آباد میں بھی کوئی باقاعدہ انجینئرڈ سینیٹری لینڈفل سائٹ نہیں ہے اور کچرا صرف عارضی طور پر مخصوص جگہوں پر پھینکا جا رہا ہے۔ یہ عارضی مقامات کچرے کے ڈھیر بن چکے ہیں جہاں روزانہ 50 ڈمپر کچرا لاتے ہیں لیکن صرف پانچ سے چھ اسے مزید آگے منتقل کر پاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں ماحولیاتی اور صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

مسئلے کی ایک اور جڑ کمزور قانون سازی اور عوامی عدم آگاہی ہے۔ ٹھوس کچرے کے انتظام کے لیے ملک میں کوئی مربوط اور قابلِ نفاذ قومی قانونی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، لینڈفل سائٹس کی جگہ کے تعین کے حوالے سے 2005 کا قانون ابھی تک مسودے کی صورت میں ہے۔

قانون کے کمزور نفاذ نے شہریوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کو مزید تقویت دی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 58 فیصد لوگ کچرے کے مضر اثرات سے بے خبر ہیں۔ لوگ عوامی مقامات پر، چلتی گاڑیوں سے اور سڑکوں پر کچرا پھینکنے کو معمول سمجھتے ہیں، چاہے قریب ہی کوڑے دان موجود کیوں نہ ہو۔ یہ عدم آگاہی اور غیر ذمہ داری کچرے کے بحران کو مزید بڑھا رہی ہے۔

کچرے کے غیر مؤثر انتظام کے ماحولیات اور انسانی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن کی معاشی قیمت اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ یہ بے قابو کچرا بیماریوں کی افزائش گاہ بنتا ہے۔ اس سے ملیریا، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، ہیضہ، سانس کے امراض اور جلدی بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کچرے کے ڈھیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچرے کے غیر مؤثر انتظام صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ ایک معاشی بوجھ بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق اگر کچرے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کی عالمی لاگت 2020 میں 252 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2050 تک 640.3 ارب ڈالر ہو جائے گی۔ اس کے برعکس، کچرے کو روکنے اور اس کے انتظام کے لیے کی جانے والی حکمتِ عملی سرمایہ کاری سے 2050 تک 108.5 ارب ڈالر کا سالانہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ کچرے کے انتظام میں سرمایہ کاری کرنا طویل مدت میں کہیں زیادہ فائدہ مند اور معاشی طور پر قابلِ عمل ہے۔

پاکستان میں کچرے کے بحران کے باوجود، مقامی سطح پر کئی امید افزا حل سامنے آ رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف سرکاری نظام کچرے کا 30 سے 40 فیصد حصہ جمع کرنے میں ناکام ہے، وہیں دوسری طرف ایک متوازی، غیر رسمی معیشت موجود ہے جو اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ غیر رسمی ری سائیکلنگ کی صنعت تقریباً 10 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ کباڑیوں اور کچرا چننے والوں پر مشتمل یہ نظام کچرے کو لینڈفل میں جانے سے پہلے ہی اٹھا لیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 90 فیصد کاغذ اور 60 فیصد پلاسٹک بلدیاتی نظام تک پہنچنے سے پہلے ہی ری سائیکلنگ کے لیے اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہ اعدادوشمار ایک اہم تضاد کو اجاگر کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ملک میں ایک فعال ری سائیکلنگ نظام موجود ہے، جو صرف رسمی اور جدید شکل کا منتظر ہے۔

پاکستان میں شہری کچرے کا مسئلہ بلاشبہ ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ ایک موقع بھی ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جو ہزاروں ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے، توانائی حاصل کرنے کا ایک نیا ذریعہ فراہم کر سکتا ہے، اور ایک صاف ستھرے، سرسبز اور صحت مند ماحول کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومتی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں نجی شعبے، مقامی برادریوں اور ہر شہری کی فعال شمولیت ضروری ہے۔

شہری کچرے کا مسئلہ ایک کثیرالجہتی چیلنج ہے اور اس کا حل صرف ایک ادارے یا فرد کی کوشش سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو پالیسی، قانون سازی، ٹیکنالوجی اور عوامی شرکت کو ایک ساتھ لائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات