انڈیا لداخ میں احتجاج دبانے کے لیے کسی حد تک جا سکتا ہے: پاکستان

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق لداخ میں مظاہروں میں اموات ’اس مقبوضہ خطے میں انڈیا کے آہنی ہاتھوں پر مبنی رویے کی ایک اور جھلک ہے۔‘

25 ستمبر، 2025 کو لیہ میں مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کے قریب پولیس کی ایک گاڑی کو آگ لگا دی (اے ایف پی)

پاکستان نے جمعے کو ایک بیان میں لداخ میں جاری احتجاج کے دوران اموات کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈین حکام احتجاج کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

چین اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع اور تقریباً تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہمالیائی خطے لداخ کے شہر لیہ میں حالات اس وقت شدید کشیدہ ہو گئے جب زیادہ سیاسی خودمختاری کے مطالبے پر ہونے والے احتجاج پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کر دی۔

پرتشدد واقعات میں کم از کم پانچ اموات اور تقریباً 100 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں 30 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

اس حوالے سے سوال پوچھے جانے پر آج اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ’ہم صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لیہ، انڈین غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر، میں پیش آنے والے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔‘

بیان کے مطابق ’یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ انڈین حکام احتجاج کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ اس مقبوضہ خطے میں انڈیا کے آہنی ہاتھوں پر مبنی رویے کی ایک اور جھلک ہے۔‘

جمعے کو انڈین پولیس نے ممتاز کارکن سونم وانگچک کو لداخ میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے سلسلے میں حراست میں لے لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی دہلی نے اس بے چینی کا الزام وانگچک کی ’اشتعال انگیز تقاریر‘ پر عائد کیا، جو لداخ کے لیے مکمل صوبائی حیثیت یا مقامی قبائل، زمین اور نازک ماحول کے لیے آئینی تحفظات کے مطالبے پر بھوک ہڑتال پر تھے۔

ایپکس باڈی لیہ کے وکیل مصطفیٰ حاجی نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس نے وانگچک کو ان کے گاؤں اُلے ٹوپو سے ’اٹھا لیا‘۔

مودی حکومت نے 2019 میں لداخ کو انڈین انتظامی کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست وفاقی حکومت کے تحت کر دیا تھا۔

ابھی تک نئی دہلی نے لداخ کو انڈیا کے آئین کے ’چھٹے شیڈول‘ میں شامل کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا، جس کے تحت مقامی عوام کو اپنے قوانین اور پالیسیاں بنانے کا اختیار ملتا ہے۔

انڈیا کی فوج لداخ میں بڑی تعداد میں موجود ہے، جہاں چین کے ساتھ متنازع سرحدی علاقے بھی شامل ہیں۔

2020 میں دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آ گئی تھیں، جس میں کم از کم 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا