سانحہ آٹھ اکتوبر۔۔۔۔ کچھ یادیں 

زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زمین کا ایک سرا ایک طرف سے آسمان کو چھو کر واپس زمین کی طرف آتا ہے اور پھر دوسرا سرا آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے۔

مظفرآباد میں رشتہ دار اُن پیاروں کی قبروں پر دعا کر رہے ہیں جو اکتوبر 2005 کے زلزلے میں ہلاک ہوئے تھے (اے ایف پی)

یہ آٹھ اکتوبر 2005، ہفتہ کی ایک صبح تھی اور میں کام پر جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا۔ آٹھ بج کر 52 منٹ پر میں اپنے کمرے میں کھڑا تھا کہ مجھے محسوس ہوا شاید مجھے چکر سا آگیا ہے۔ تھوڑا سنبھلا ہی تھا کہ باہر سے والدہ نے آواز دی کہ زلزلہ آ رہا ہے باہر آؤ۔

میں تیزی سے اپنے صحن کی طرف بھاگا تو میری والدہ اور بہنیں پہلے ہی سہم کر صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زمین کا ایک سرا ایک طرف سے آسمان کو چھو کر واپس زمین کی طرف آتا ہے اور پھر دوسرا سرا آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے۔

ایک عجیب و غریب قسم کی گونج تھی، گھر میں موجود مرغیوں کا شور بھی آسمان کو چھو رہا تھا۔ خوف و ہراس کے آثار ہم سب کے چہروں پر نمایاں تھے اور کلمہ طیبہ کا ورد سب کی زبانوں پر جاری تھا۔ تھوڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

زلزلے کے جھٹکے تھم جانے کے بعد بھی دل کے ڈھڑکنیں تیز تھیں اور ایک انجانا سا خوف اٹھ رہا تھا۔ زلزلے سے بجلی کی بندش کے باعث ٹی وی پر کوئی اَپ ڈیٹ حاصل نہ ہوسکتی تھیں جبکہ 2005 میں موبائل فون کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دوست احباب کی خیریت بھی معلوم نہ ہو سکی۔

میں گھر کے دیگر افراد کی طرح کچھ دیر خوف میں مبتلا رہا۔ پھر تیار ہو کر بازار کی طرف نکل پڑا۔ دکان پر جا کر مقامی ٹیلی فون نیٹ ورک سے میرپور میں کچھ دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ہر کسی کا فون مصروف جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میرپور میں صحافی بھائی ارشد بٹ سے رابطہ ہوا جن سے معلوم ہوا کہ ایف ون میں ایک مسجد کا مینار گرنے سے کچھ افراد زخمی ہوئے جبکہ کچھ دیگر واقعات میں بھی متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اتنے میں بجلی آجانے سے دکان پر موجود ٹی وی سیٹ آن کیا تو پتہ چلا کہ اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور کے گرنے سے کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور ٹاور میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالا جا رہا ہے۔ پاکستان کا سارا میڈیا مارگلہ ٹاور تک ہی محدود تھا اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس سے کہیں زیادہ تباہی کشمیر میں آ چکی ہے۔ تاہم جوں جوں دن گزرتا گیا تو پتہ چلا کہ 7.6 شدت کے اس زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

یہ کشمیر اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس نے کشمیر کے تین اضلاع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر 978 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔ اس زلزلے میں تقریباً 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے سے بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد 3.5 ملین تھی۔ زلزلے میں 19 ہزار بچے فوت ہوئے جن کی اموات زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گرنے سے ہوئیں۔ تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ غرض یہ کہ زلزلہ دہ علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان علاقوں میں شدید سردی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں کا جینا اور بھی مشکل ہوگیا۔ کشمیر کے دیگر علاقوں، پاکستان، تارکینِ وطن پاکستانی و کشمیریوں اور عالمی برادری نے اس زلزلے پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امدادی کارروائیاں شروع کیں اور زلزلہ زدہ علاقوں میں لوگوں کو ٹینٹ، خوراک، گرم کپڑے، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کو فی الفور پہنچانے کے لیے اقدام اٹھائے گئے۔ ان کارروائیوں میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان کی بہادر افواج کا تھا جنہوں نے 24 گھنٹے کام کرکے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کی۔

مجھے باغ اور مظفر آباد میں زلزلے کی ان تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا، جب میں اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ ان علاقوں میں متاثرہ بھائیوں کی امداد کے لیے گیا۔ گری پڑی عمارتیں، ٹوٹے ہوئے پل، لینڈ سلائیڈنگ کے مناظر تباہی کی تمام داستان سنا رہے تھے۔ مظفر آباد یونیورسٹی کے تباہی کے مناظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ ریسکیو کے بعد متاثرینِ زلزلہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

آٹھ اکتوبر کے ہولناک زلزلے کو 14 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ جواں ہمت متاثرین زلزلہ نے اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑنے ہونے کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ 14 سال مسلسل شیلٹروں میں گزارنے کے باوجود ان کی ہمت اور حوصلے جواں ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ارباب اختیار کی طرف سے ان کی بحالی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ زلزلے سے لے کر اب تک کشمیر میں سات مختلف وزیراعظم برسرِ اقتدار رہے تاہم متاثرین کے لیے کسی کی بھی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔

اس وقت کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ہیں، جو خود بھی اس زلزلے میں متاثر ہوئے تھے اور ان کا اپنا مکان بھی تباہ ہوا تھا۔ کشمیر میں اس وقت اُن سے زیادہ کوئی موزوں شخص نہیں ہوسکتا جو متاثرین کے مسائل کا ادراک رکھتا ہو۔ ان کا وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا متاثرین کے لیے باعثِ حوصلہ تھا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ راجہ فاروق حیدر خان متاثرینِ زلزلہ کے لیے کوئی انقلابی اقدام اٹھائیں گے جس سے ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔ اگر آج راجہ فاروق حیدر خان نے بھی متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا تو پھر کسی اور سے یہ امیدیں وابستہ کرنا بے سود ہوگا۔

این جی اوز کے ساتھ ساتھ اگر حکومت بھی بڑھ چڑھ کر تعاون کرے تو متاثرین کی بحالی میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور مسکراہٹوں کا شہر میرپور ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر ہنستا بستا نظر آئے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ