سندھ کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں بٹیر کے غیر قانونی شکار میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جہاں شکاری روایتی طریقوں کے بجائے ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں، جن کے خلاف وائلڈ لائف حکام کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
ماہرین کے مطابق بٹیر ایک مائیگریٹری پرندہ ہے، جو وسطی ایشیائی خطوں کے سرد علاقوں سے ہر سال خزاں کے آغاز میں پاکستان کا رخ کرتا ہے اور یہاں تین سے چار ماہ قیام کے بعد واپس لوٹ جاتا ہے۔ یہ ہجرت کرنے والے اولین پرندوں میں شمار ہوتا ہے، جس کی آمد کے بعد دیگر پرندوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
تاہم مقامی شکاری رات کے وقت کھیتوں اور ویران مقامات پر ایم پی تھری سپیکر کے ذریعے بٹیر کی آوازیں چلا کر انہیں پہلے سے بچھائے گئے جالوں میں پھنساتے ہیں اور پھر آگے فروخت کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک مقامی شکاری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کھیتوں کے اطراف میں ہم جال لگاتے ہیں اور درمیان میں ایم پی تھری سپیکر پر بٹیر کی آوازیں چلاتے ہیں۔ صبح کے وقت لڑنے کی آواز ڈالی جاتی ہے تو پرندے گھبرا کر اڑتے ہیں اور سیدھا جال میں پھنس جاتے ہیں۔
’ہم انہیں پکڑ کر مقامی ڈیلروں کو فی پرندہ سو روپے تک میں فروخت کر دیتے ہیں، جہاں سے یہ ہوٹلوں یا گھر یلو صارفین تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ اس کا سوپ اور گوشت خاصا پسند کیا جاتا ہے۔‘
ڈپٹی کنزرویٹر وائلڈ لائف سکھر عدنان حامد نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’بٹیر نہ صرف کسان دوست پرندہ ہے بلکہ کھیتوں میں نقصان دہ کیڑوں کو تلف کر کے قدرتی محافظ کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔
’اس کا وزن اگرچہ محض 90 سے 140 گرام ہوتا ہے، مگر اس کی ماحولیاتی خدمات اس گوشت سے ہزاروں گنا زیادہ اہم ہیں۔ ستمبر سے نومبر تک ان کی افزائش نسل کے اہم مہینے ہوتے ہیں، لیکن اسی دوران سب سے زیادہ غیر قانونی شکار بھی کیا جاتا ہے۔‘
عدنان حامد نے بتایا کہ بٹیروں کا شکار روکنے کے لیے ان کی ٹیمیں رات کے اوقات میں دور دراز علاقوں میں چھاپے مارتی ہیں، جہاں کھیتوں کے اطراف اور راستوں پر بچھائے گئے جال ضبط کیے جاتے ہیں۔
’اس کے علاوہ ہم نے بسوں، ٹرینوں اور دیگر ٹرانسپورٹ پر بھی چھاپے مارے ہیں جہاں سے درجنوں بٹیر اور شکار میں استعمال ہونے والے آلات برآمد ہوئے، متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ پکڑے گئے متعدد پرندے بحفاظت آزاد کر دیے گئے۔‘
سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت محفوظ پرندوں کے غیر قانونی شکار یا ٹرانسپورٹ پر چھ ماہ تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے، جبکہ سنگین خلاف ورزیوں میں دونوں سزائیں بیک وقت بھی لاگو کی جا سکتی ہیں۔
عدنان حامد کے مطابق: ’اب تک کی کارروائیوں میں کافی بڑی تعداد میں جال اور ایم پی تھری آلات ضبط کر کے تلف کیے گئے ہیں، جب کہ متعدد بٹیروں کو شکاریوں سے برآمد کر کے دوبارہ آزاد کیا گیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قانون کے ساتھ ساتھ شعور کے ذریعے بھی اس رجحان کو روکا جائے۔‘