موسمیاتی تبدیلی: پاکستان فرنٹ لائن پر کیوں؟

ماحولیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے بیرونی مالی اور تکنیکی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ 

غلام بانو 29 اگست، 2025 کو لاہور کے علاقے شاہدرہ میں دریائے راوی کے کنارے واقع اپنے زیرِ آب گھر کے قریب کھڑی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا عالمی زہریلی گیسوں میں تقریباً صفر حصہ ہے، مگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بوجھ اس پر غیر متناسب طور پر پڑ رہا ہے۔ 

بار بار آنے والے سیلاب، گرمی کی لہریں اور خشکی کے دورانیے نے ناصرف قدرتی نظام کو متاثر کیا ہے بلکہ سماجی و اقتصادی ساخت کو بھی جڑ سے ہلا دیا ہے۔ 

اس صورت حال میں موسمیاتی فنانس وہ اہم ذریعہ ہے جو ملکوں کو موافقت (adaptation)، تخفیف (mitigation) اور نقصان و تباہی سے نمٹنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ مگر موجود نظام بارہا ناکام نظر آتا ہے۔

عالمی سطح پر تسلیم شدہ تحقیق اور رپورٹس بار بار بتاتی ہیں کہ جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان، موسمیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثر ہونے والا خطہ ہے۔ 

بین الحكومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی آئی پی سی سی کی رپورٹیں واضح کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان جیسی زرعی معیشتیں فوڈ سکیورٹی اور روزگار کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ 

یہ رپورٹس اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ گرمائش، بہت زیادہ بارشیں اور گلیشیئرز کا پگھلنا مستقبل میں سنگین اقتصادی و انسانی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں۔

عالمی بینک اور متعلقہ اداروں کی مشترکہ پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسسمنٹ (پی ڈی این اے) کے مطابق مجموعی طور پر براہِ راست نقصان اور اقتصادی نقصانات کے اندازے اربوں ڈالر میں تھے اور بحالی اور تعمیر کے لیے قابلِ لحاظ رقم درکار تھی۔ 

عالمی بینک کی پریس ریلیز اور پی ڈی این اے کے تفصیلی اعداد و شمار نے عالمی برادری کو باور کرایا کہ پاکستان جیسی معیشتوں کے لیے موسمیاتی سانحات محض ایک وقتی صدمہ نہیں بلکہ طویل المیعاد ترقی پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

شدید موسمی حالات نے معیشت، زراعت اور انسانی زندگی پر گذشتہ سالوں میں بھاری اثرات مرتب کیے ہیں۔ 2010 کے سنگین سیلابوں کے بعد سے پانی کی قلت بھی بڑھتی گئی ہے۔ 

پاکستان کا زیادہ تر زرعی انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے لیکن نئے مطالعوں کے مطابق گلیشیئر کے پگھلنے اور خشک سالی کی وجہ سے دریائے سندھ میں رواں پانی میں کمی ہو سکتی ہے۔

پاکستان اس وقت پانی کی کمی کا شکار ہے اور ایک شخص کے لیے سالانہ دستیاب پانی ایک ہزار مکعب میٹر سے کم رہ گیا ہے۔ 

اس سے ناصرف کھیتی متاثر ہوئی ہے بلکہ شہروں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی سنبھل نہیں رہی۔ 

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلابوں کے بعد 1700 سے زائد اموات کے علاوہ ایک کروڑ سے زیادہ افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو گئی تھی۔

زراعت سمیت زرعی شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق 2022 کے سیلابوں نے زرعی شعبے کو 3.7 ارب ڈالرز کا براہِ راست نقصان پہنچایا اور اس شعبے کی کل 9.2 ارب ڈالرز کی مالیاتی خساروں کا 60 فیصد حصہ تھا۔ 

تقریباً 4.4 لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہو گئیں اور آٹھ لاکھ مویشی مارے گئے۔ یہی بحران خوراک کی پیداوار اور معیشت پر منفی اثرات کا سبب بنا۔

موسمیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ تباہیوں کی وجہ سے اندرونِ ملک نقل مکانی کے رجحانات بڑھ گئے ہیں۔ 

یورپی جرنل ’نیچر کلائمیٹ چینج‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سیلابوں کے مقابلے میں ہیٹ سٹریس (انتہائی گرمی) کی لہریں دیہی علاقوں میں طویل مدتی انسانی ہجرت میں واضح اضافہ کرتی ہیں۔ 

یعنی گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے کسان اپنے گاؤں چھوڑ کر شہروں یا دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں، جہاں موسمی اثرات سے کم خطرات ہوں۔

حکومت پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کر چکی ہے۔ 

پاکستان نے 2012 میں پہلی نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی مرتب کی، جس میں توانائی کے شعبے میں شفافیت اور زرعی شعبے میں مطابقت جیسے اہداف شامل تھے۔ 

اس کے بعد کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 بھی نافذ ہوا، جس کے تحت اعلیٰ سطحی ماحولیاتی کونسل قائم کی گئی تاکہ موسماتی حکمت عملی کو مربوط کیا جا سکے۔

سیلاب اور دیگر آفات کے دوران ریلیف کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی فعال رہی اور حکومت نے متاثرہ علاقوں کے لیے امدادی فنڈز قائم کیے۔ 

مثال کے طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد وزیر اعظم نے ایک قومی ریلیف فنڈ شروع کیا جس میں قومی اور بین الاقوامی عطیات جمع کیے گئے۔ 

زرعی شعبے کے استحکام اور ڈیزاسٹر رسپانس کو مضبوط بنانے کے لیے اہم انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھی توجہ دی گئی۔ 

حکومت گرین انفراسٹکچر کو فروغ دے رہی ہے، جیسے کہ ریچارج پاکستان جو دریائے سندھ اور ماحولیات کی بحالی پر مبنی ہے۔

عالمی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سخت متاثر ہے۔ جرمن واچ کی گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 میں پاکستان کو 2022 کے لحاظ سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ملک قرار دیا گیا۔ 

اسی طرح اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ نازک (vulnerable) ملکوں میں شامل ہے۔ 

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا کے ایسے 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

موسمیاتی بحران کی شدت کی اس حقیقت نے عالمی فورمز میں پاکستان کے موقف کو تقویت دی ہے۔ 

جرمن واچ کے تازہ ترین تجزیے کے مطابق 2022 کے موسمیاتی دھچکوں نے زراعت پر شدید دباؤ ڈالا اور خوراک کی پیداوار کو خطرے میں ڈال دیا۔ 

ان رپورٹس میں پاکستان کے بڑے سیلابی واقعات (جیسے 2022 کے سیلاب) کا حوالہ دیا گیا جن میں کروڑوں ایکڑ رقبہ زیرِ آب آیا اور 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔

ان رپورٹوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ثبوت فراہم کیے کہ پاکستان توانائی اور پیداوار میں کاربن کا کم حصہ ہونے کے باوجود موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے تدارک کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کا خواہاں ہے۔ دسمبر 2023 میں COP28 میں پاکستان نے نقصانات اور ضیاع فنڈ کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس اجلاس میں تقریباً 792 ملین ڈالرز فنڈ جمع کرنے کا اعلان ہوا۔ پاکستان کا ماحولیاتی وفد اس بورڈ کا حصہ بھی بن گیا تاکہ متاثرہ ممالک کو مالی امداد پہنچائی جا سکے۔ 

تاہم WWF پاکستان اور دیگر تنظیموں کے مطابق پاکستان کے بڑے سیلابی نقصانات کے سامنے یہ امداد ناکافی ہے۔

گرین کلائمیٹ فنڈ کے ذریعے بھی پاکستان کو اربوں ڈالر کے منصوبے ملے۔ مثال کے طور پر ری چارج منصوبےکو 68 ملین ڈالرز کی گرانٹ دی گئی، جس کا مقصد سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی اقدامات کے ذریعے دریائے سندھ کے ایکو سسٹم کو مضبوط بنانا ہے۔ 

پاکستان COP فورمز اور عالمی کنونشنز میں مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے موسمیاتی وعدوں کے مطابق امداد فراہم کریں۔

عالمی سطح پر پاکستان کی آواز کو اہمیت دی جا رہی ہے کہ موسمیاتی انصاف کے تحت شفاف امداد اور سرمایہ کاری کی جائے۔ 

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 2022 کے سیلابوں کے بعد 16 ارب ڈالرز سے زیادہ درکار تھے، لیکن بین الاقوامی وعدے پورے نہیں ہوئے۔ 

انہی رپورٹس میں کہا گیا کہ پاکستان کو 2023 سے 2030 کے دوران موسمیاتی موافقت کے لیے مجموعی طور پر 152 ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی، جو آج تک نہ مل پائے۔

ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک کو اس کے اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بیرونی مالی اور تکنیکی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ 

پاکستان نے حکومت اور سول سوسائٹی کی سطح پر متعدد پروگرام شروع کیے ہیں اور عالمی اداروں سے شراکت داری میں کام کر رہا ہے۔ 

تاہم وقوع پذیر ہونے والی ہر تباہی نے یہ سچائی واضح کر دی ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے قوم اور عالمی برادری کو ایک ساتھ مل کر مضبوط حکمت عملی اور وسائل فراہم کرنا ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات