جنوبی پنجاب میں وارننگ سنجیدہ نہیں لی گئی اس لیے زیادہ نقصان ہوا: پی ڈی ایم اے سربراہ

عرفان علی کاٹھیا کے مطابق اپر پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب میں سیلاب سے زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ وہاں لوگوں نے انتظامیہ کی وارننگ کو سنجیدہ نہیں لیا اور جب سیلاب آیا تو پھر انتظامیہ پر لوگوں کو ریسکیو کرنے کا دباؤ بڑھ گیا۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے حالیہ سیلاب کو ’1956 کے بعد سب سے بڑا سیلاب‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران تمام اداروں نے مل کر کام کیا، تاہم جنوبی پنجاب میں زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ وہاں لوگوں نے انتظامیہ کی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ملک بھر میں جون کے وسط سے جاری مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں اب تک نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں اور ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ مال مویشی اور املاک کا بھی نقصان ہوا ہے۔

دوسری جانب انڈیا کی جانب سے اپنے دریاؤں سے چھوڑا گیا پانی پنجاب کے دریاؤں راوی، ستلج اور چناب میں طغیانی اور اردگرد کی آبادیوں کو متاثر کرنے کے بعد اب سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔

پنجاب میں سیلاب سے تباہی اور بحالی سے متعلق جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا سے خصوصی گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ ’اس سال 1956 کے بعد سب سے بڑا سیلاب آیا ہے۔ پنجاب کے تین دریا ستلج، چناب اور راوی میں ایک ہی وقت گنجائش سے زیادہ پانی سے نمٹنا بہت مشکل کام تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ ’سب سے زیادہ نقصان دریائے چناب میں ہیڈ قادرآباد کے مقام پر ہوا جہاں پانی کی سطح ساڑھے دس لاکھ کیوسک سے زائد ہوئی جبکہ وہاں پانی گزرنے کی گنجائش نو لاکھ کیوسک ہے۔ اسی طرح دریائے راوی میں ہیڈ سدھنائی کے مقام پر گنجائش ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ پانی دو لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ آ گیا۔ پھر دریائے ستلج میں پانی کی سطح ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ رہی جس سے گنڈا پور میں کئی دن تک سطح خطرناک حد تک رہی۔‘

پی ڈی ایم اے سربراہ کے مطابق اس بار سیلاب نے زیادہ تباہی اس لیے مچائی کہ دریائے چناب میں پانی کی سطح کئی دن بلند رہی۔ ’اس دریا میں راوی سدھنائی سے شامل ہوتا ہے جبکہ ستلج جلالپور پیروالہ کے مقام پر اس میں شامل ہوتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کا پانی چناب میں سطح بلند ہونے پر آگے جا نہیں سکا بلکہ چناب کا پانی واپس ان دریاؤں میں آ گیا، جس سے کئی مقامات پر شگاف ڈال کر ہیڈ ورکس بچانا پڑے۔‘

عرفان کاٹھیا نے کہا کہ ’سیلاب کی دوسری بڑی وجہ آبی گزرگاہوں پر تعمیرات تھیں، جس پانی کا رستہ رکنے پر آبادیاں زیرآب آئیں۔ اپر پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب میں سیلاب سے زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ وہاں لوگوں نے انتظامیہ کی وارننگ کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جب سیلاب آیا تو پھر لوگوں کو ریسکیو کرنے کا دباؤ انتظامیہ پر بہت بڑھ گیا۔ اس کے باوجود لوگوں کو محفوظ مقامات پر ایمرجنسی میں ہی منتقل کر دیا گیا۔‘

اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے 47 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں سے مجموعی طور پر 22 لاکھ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران تین لاکھ کچے جبکہ 83 ہزار پکے مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ مجموعی طور پر پنجاب کے کل 27 اضلاع میں سیلاب آیا، البتہ کہیں کم اور کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سیلاب متاثرین کے نقصان کے ازالے کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔

عرفان علی کاٹھیا نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’جن کے گھر جزوی متاثر ہوئے انہیں پانچ لاکھ، جن کے مکمل گر گئے انہیں 10 لاکھ، دودھ دینے والی بھینس کے پانچ لاکھ، دیگر جانوروں کے فی جانور ڈیڑھ سے تین لاکھ روپے تک حکومت ادا کرے گی۔‘

اسی طرح انہوں نے بتایا کہ پہلی بار تباہ ہونے والی فصلوں کے بھی فی ایکڑ 20 ہزار روپے بھی ادا کیے جائیں گے۔

عرفان کاٹھیا نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’ہم نے سیلاب سے پہلے ہی 25 اگست کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے تمام ایریاز کی تصاویر بنوائی ہوئی ہیں۔ اب سیلاب کے بعد بھی بنوائی ہیں، جن سے واضح ہے کہ کہاں کتنا سیلاب آیا، کس کا کتنا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر کمیٹیاں سروے کر کے رپورٹ پیش کریں گی۔ صوبائی سطح پر مختلف طریقوں سے موصول تفصیلات کے تحت جلد ہی ریلیف پیکج شروع کر دیا جائے گا اور متاثرین میں رقوم شفاف انداز میں ان کے اکاؤنٹس میں بھجوائی جائیں گی۔‘

سربراہ پی ڈی ایم اے نے دعویٰ کیا کہ ’ہر دس سال میں ایک یا دو بار شدید سیلاب سے معیشت اور انفراسٹرکچر متاثر ہوتا ہے، اس لیے اس بار سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ آئندہ نقصان سے بچا جا سکے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے غیر متوقع نتائج سے نمٹنا ایک چیلنج برقرار ضرور رہے گا۔ البتہ ایسا بھی ممکن نہیں کہ تمام دریاؤں کے اطراف ہر جگہ انتہائی اونچی رکاوٹیں بنا دی جائیں، لیکن آبی گزرگاہوں اور بندوں کی مضبوطی کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان