اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ’پارلیمنٹری کاکس‘ کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں پہلی مرتبہ ’پارلیمنٹری کاکس فار مائنارٹیز ‘ کے نام سے ایک  فورم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے سربراہ دنیش کمار کے مطابق ملک کی تقریباً ایک کروڑ اقلیتی برادری کے متعدد مسائل کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ’پارلیمنٹری کاکس فار مائنارٹیز‘ کے نام سے ایک  فورم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے سربراہ دنیش کمار کے مطابق یہ اقلیتی برادریوں کو درپیش دیرینہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہ کاکس غیر مسلم اراکین پارلیمنٹ کے مطالبے پر قائم کیا گیا ہے، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پارلیمانی کاکس آخر ہوتا کیا ہے؟

پارلیمانی کاکس پارلیمنٹ ہاؤس کی قائمہ کمیٹیوں کی طرح کا ہی ایک فورم سمجھا جاتا ہے، جو اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں وہ مخصوص مسائل جیسے خواتین اور بچوں کے حقوق پر متحد ہو کر مؤثر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ ان ہی اراکین سے کسی ایک کو فورم کا کنوینر مقرر کیا جاتا ہے۔

کاکس کسی بھی خاص مسئلے پر متعلقہ حکام کو طلب کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جس کے دوران ارکان تبادلہ خیال، حکمت عملی بنانے، معلومات شیئر کرنے اور اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے وکالت کر سکتے ہیں۔ کاکس کسی بھی مسئلے پر قانون سازی کے لیے معاونت کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پارلیمانی کاکس فار مائنارٹیز کے کنوینر سینیٹر دنیش کمار سے بات کی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ یہ فورم اقلیتی برادریوں کو درپیش دیرینہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کاکس کی تشکیل کے حوالے سے بتایا: ’ہم نے یہ ضرورت محسوس کی کہ چونکہ اقلیتوں کے جتنے بھی اراکین پارلیمان ہیں، وہ متعدد معاملات پر اکٹھے نہیں بیٹھتے۔ پاکستان میں اقلیتی برادری تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور ان کے متعدد مسائل ہیں، اس لیے ہمیں ایک منظم پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔‘

کنوینر دنیش کمار نے بتایا کہ کاکس کا ایک اہم مقصد قدیم مذہبی عبادت گاہوں کی بحالی اور ان کا انتظام متعلقہ برادریوں کے حوالے کرنا بھی ہے۔ ’ہماری کوشش ہے کہ ہندوؤں کے قدیم مندروں، سکھوں کے گردواروں اور مسیحی برادری کے گرجا گھروں کو ان کے حوالے کیا جائے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں سید پور گاؤں میں موجود پرانے مندر کو ہندو برادری کے حوالے کرنے پر ہم کام کر رہے ہیں۔‘

کاکس کے اختیارات سے متعلق دنیش کمار نے کہا کہ اس کے اختیارات پارلیمان کی قائمہ کمیٹیوں کی طرح ہوں گے۔ ’ہم کسی بھی ادارے یا متعلقہ حکام کو طلب کر سکتے ہیں۔ اوقاف ٹرسٹ کے حوالے سے بھی ہمارے ٹی او آرز میں شامل ہے کہ ہم ان سے بازپرس کر سکیں۔‘

اس سے قبل خواتین کا پارلیمانی کاکس بھی بنایا گیا تھا۔ جہاں ایک جانب اس کاکس نے کچھ قانون سازی کی وہیں دوسری جانب اس پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے خواتین کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔

اس ضمن میں سینیٹر دنیش کمار نے دعویٰ کیا کہ پارلیمانی کاکس آن ویمن کے قیام سے خواتین کے مسائل میں بہتری دیکھی گئی، اب اقلیتوں کے حقوق کے لیے بھی ایک منظم پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کم عمر لڑکیوں کی جبری شادیوں اور مذہب کی تبدیلی جیسے حساس معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے تو اسے روکا جائے، لیکن یہ ہونا چاہیے کہ ہم آزادانہ طور پر یہ جان سکیں کہ فیصلہ رضاکارانہ ہے یا دباؤ کے تحت کیا گیا ہے۔‘

یہاں دنیش کمار صوبہ سندھ سمیت دیگر علاقوں میں پیش آنے والے ان واقعات کا حوالہ دے رہے تھے، جہاں مبینہ طور پر غیر مسلم لڑکیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کروا کر مسلمان کیا گیا۔ سندھ سے ایسے بیشتر واقعات سامنے آئے اور کچھ سپریم کورٹ تک بھی پہنچے۔

دنیش کمار نے کہا کہ وہ مذہبی رہنماؤں، میاں مٹھو صاحب اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے ملیں گے تاکہ دنیا میں پاکستان کے منفی تاثر کو ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کاکس ہندو، سکھ اور مسیحی شادی کے قوانین کی بہتری کے لیے بھی کام کرے گا۔ ’اب بھی کئی صوبوں میں ہندو میرج بل منظور نہیں ہوا اور ان شادیوں کی قانونی حیثیت واضح نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان بلز کو ملک بھر میں لاگو کیا جائے تاکہ اقلیتوں کو ان کے ازدواجی حقوق مل سکیں۔‘

پارلیمانی کاکس کے سربراہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتی برادری تعلیم کے شعبے میں بھی عدم مساوات محسوس کرتی ہے۔ ’ہماری ترجیح ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے آئین پاکستان میں جو ضمانتیں دی گئی ہیں، ان پر مکمل عملدرآمد کروایا جائے اور جہاں کمی ہے وہاں قانون سازی کی جائے گی۔‘

سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں، اس لیے کوشش ہوگی کہ صوبائی سطح پر بھی ایسے کاکس قائم کیے جائیں۔

’ہم چاہتے ہیں کہ ہر صوبے میں پارلیمانی کاکس فار مائنارٹیز بنے تاکہ اقلیتوں کی شکایات کم سے کم ہوں اور انہیں حقیقی معنوں میں برابر کے شہری حقوق حاصل ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان