کیا آپ کو وہ دن یاد ہیں جب آپ بے چینی سے اپنے بھائی یا بہن کے فون رکھنے کا انتظار کرتے تھے تاکہ آپ کی باری آ سکے؟ یا وہ وقت جب آپ اپنے دوست سے گھنٹوں فون پر بات کرتے تھے اور والدین کا فون بل بڑھ جاتا تھا؟
اب لگتا ہے وہ دن دوبارہ لوٹ رہے ہیں کیونکہ بہت سے والدین اپنے گھروں میں لینڈ لائن فون دوبارہ لگوا رہے ہیں تاکہ بچوں میں سکرین کے حد سے زیادہ استعمال کی عادت نہ بنے اور ان میں خودمختاری کا احساس پیدا ہو۔
امریکی ریاست مین کے شہر پورٹ لینڈ میں قائم ایک تنظیم ’لینڈ لائن کڈز‘ اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، یعنی ’سکرین پر انحصار کم کرنا‘ اور بچوں کے درمیان بامعنی گفتگو کو دوبارہ زندہ کرنا۔
یہ تنظیم لوگوں کو گھروں میں تار والے لینڈ لائن فون لگانے میں مدد دیتی ہے اور ’لینڈ لائن پوڈز‘ بناتی ہے، یعنی ایسے گھروں کے نیٹ ورک، جن میں بچے پہلے سے منظور شدہ نمبروں پر کال کر سکتے ہیں بغیر ٹیکسٹنگ یا سوشل میڈیا کے۔
اسی رجحان کو فروغ دینے والے ایک اور کاروبار کا نام ’ٹن کین‘ ہے، جسے امریکہ کے شہر سیاٹل، واشنگٹن میں مقیم تین بچوں کے والد چیٹ کیٹل سن نے شروع کیا۔
یہ خیال انہیں دو سال پہلے آیا جب وہ اور ان کے دوست والدین اپنے بچوں کے لیے پلے ڈیٹس (بچوں کے آپس میں کھیلنے کے اوقات) منظم کر رہے تھے۔
اسی دوران انہیں ایک دلچسپ احساس ہوا۔ ’ہم آٹھ سالہ بچوں کے ایگزیکٹیو اسسٹنٹ بن گئے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ وہ کہاں اور کب ملیں گے۔‘
وہ دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اسی گفتگو میں مجھے احساس ہوا کہ جب ہم بچے تھے تو ہمارا پہلا سماجی نیٹ ورک لینڈ لائن تھا اور ہمارے بچوں کے پاس وہ سماجی نیٹ ورک نہیں۔‘
کیٹل سن نے 2024 میں اپنی ’فلیش بیک‘ لینڈ لائنز متعارف کرائیں، جنہیں ’80 کی دہائی کے بچپن کا فون‘ کہا گیا۔ عام طور پر یہ باورچی خانے کی دیوار پر نصب ہوتا تھا۔
یہ فون گلابی، سیاہ اور سفید رنگوں میں دستیاب ہے اور اس کی قیمت 75 ڈالر ہے۔ یہ یا تو گھریلو انٹرنیٹ راؤٹر یا دیوار میں لگے ایتھرنیٹ پورٹ سے منسلک ہوتا ہے۔
ٹن کین صارفین کے لیے دو فون پلان دستیاب ہیں۔ مفت پلان میں صرف دوسرے ٹن کین فونز یا ایمرجنسی نمبر911 پر کال کی جا سکتی ہے۔ 9.99 ڈالر ماہانہ پلان میں بچے کسی بھی نمبر پر کال کر سکتے ہیں۔
دونوں پلانز میں صرف منظور شدہ رابطے ہی فون کر سکتے ہیں اور والدین یہ طے کر سکتے ہیں کہ فون کب استعمال ہو یا کالز کب موصول ہوں۔
کیٹل سن کا مشن ہے کہ بچوں کو کم عمری سے ہی زیادہ خودمختاری دی جائے اور والدین کا اعتماد حاصل کرنے میں مدد کی جائے تاکہ وہ خود اپنے پلے ڈیٹس منظم کر سکیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں صارفین سے زبردست فیڈ بیک ملا، جس میں ایک ماں نے کہا کہ جب ان کے بچے نے پہلی بار ٹن کین فون پر وائس میل ریکارڈ کیا تو اس کی آواز دبے لہجے میں تھی۔
کیٹل سن نے کہا ’ایک ہفتے میں ہی انہوں نے محسوس کیا کہ بچے نے اپنی آواز پا لی ہے — وہ زیادہ بلند اور پراعتماد لہجے میں بولنے لگا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لارن زیمر دو بچوں کی ماں ہیں، جن کی عمریں آٹھ اور پانچ سال ہیں۔ وہ گذشتہ ایک سال سے ٹن کین لینڈ لائن استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے یہ فون اس وقت خریدا جب ان کی دوست ماؤں کے درمیان یہ بات عام ہوئی کہ وہ اپنے بچوں کو آٹھویں جماعت سے پہلے موبائل فون نہیں دلائیں گی، لیکن وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ بچے آپس میں بات کر سکیں۔
زیمر کے مطابق لینڈ لائن نے ان کے بچوں کو فارغ وقت کی قدر سکھائی کیونکہ یہ انہیں خود سے کھیلنے یا منصوبے بنانے پر مجبور کرتا ہے۔
مثال کے طور پر ان کے آٹھ سالہ بیٹے نے حال ہی میں کہا کہ وہ چاہتا ہے اس کے دوست اپنے پوکے مون کارڈز لائیں۔
زیمر بتاتی ہیں ’اس نے ٹن کین فون پر اپنے دوست کو کال کی اور ان کی بات چیت ہوئی کہ وہ کیا لائیں گے۔‘
’یوں یہ ماں کا کردار نہیں رہا کہ بچوں کے کام سنبھالے بلکہ خود بچے اپنی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہ خودمختاری ہے، یہ خود فیصلہ سازی ہے، یہ سماجی رابطے کی تربیت ہے۔‘
زیمر کہتی ہیں کہ لینڈ لائن کے ذریعے ان کے بچے زیادہ ذمے دار اور سننے والے بن گئے ہیں، اگرچہ وہ اب بھی موبائل فون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
وہ اور ان کی دوست مائیں ہمیشہ اس بات پر غور کرتی رہتی ہیں کہ بچوں کو آئی پیڈ پر کتنا وقت دینا چاہیے، انہیں غیرضروری ٹیکنالوجی (جیسے سمارٹ واچز) سے کیسے دور رکھنا ہے اور انہیں سوشل میڈیا سے کیسے بچانا ہے۔
کامن سینس میڈیا کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 2024 میں صفر سے آٹھ سال کی عمر کے بچے روزانہ تقریباً ڈھائی گھنٹے سکرین دیکھنے میں گزارتے ہیں۔
دو سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہر 10 میں سے چار بچوں کے پاس اپنا ٹیبلٹ ہوتا ہے جبکہ چار میں سے ایک بچے کے پاس آٹھ سال کی عمر تک اپنا موبائل فون آ جاتا ہے۔
کیٹل سن کے مطابق لینڈ لائن پر ہونے والی گفتگو میں ایک خاص سچائی ہوتی ہے جو میسجنگ کے ذریعے ممکن نہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب ان کی 10 سالہ بیٹی نے سکول بدلنے کے بعد اپنی ایک دوست سے لینڈ لائن پر رابطہ رکھا تو دونوں روز دو بار دو ہفتوں تک بات کرتی رہیں۔
وہ کہتے ہیں ’شاید انہیں خود اندازہ نہ ہو لیکن وہ ایک دوسرے کے لیے سکون کا ذریعہ تھیں۔ وہ دونوں نئے ماحول میں تھیں لیکن اس لینڈ لائن کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے جڑی رہیں۔‘
’اگر وہ دونوں آئی فون 17 پر بات کرتیں تو شاید اتنی لمبی گفتگو ممکن نہ ہوتی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی توجہ بٹانے والی چیزوں میں وہ جلدی متن یا سوشل میڈیا پر منتقل ہو جاتیں۔‘
کیٹل سن کہتے ہیں ’یہ میرے لیے ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح بچے اپنی زندگی کے اہم واقعات پر ایک دوسرے سے خود رابطہ کرتے ہیں نہ کہ والدین یا سوشل میڈیا کے ذریعے۔‘
’ہم ٹن کین کو ایک سوشل نیٹ ورک کہتے ہیں کیونکہ وہی تبادلہ خیال جو آن لائن ہوتا ہے، یہاں بھی ہوتا ہے، بس یہ دکھاوے کے بغیر ہے۔‘
لینڈ لائن کے فوائد صرف بچوں کے لیے نہیں بلکہ والدین کے لیے بھی ہیں۔ زیمر کہتی ہیں کہ ٹن کین رکھنے سے ان کے دوسرے والدین کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
ایک پلے ڈیٹ کے دوران وہ اور ایک دوسرے والد نے لینڈ لائن کے ذریعے بچوں کے منصوبے طے کیے۔
’بات بچوں کی دیکھ بھال سے شروع ہوئی لیکن وہ ایک خاندانی رات کے کھانے پر ختم ہوئی۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ ٹن کین نے میری دوستیاں بہتر بنا دی ہیں۔ بچے پڑوسیوں کو بلاتے ہیں اور پھر میں کہتی ہوں، ’میں تو ویسے بھی کھانا بنا رہی ہوں، آپ بھی رک جائیں۔‘ اس طرح ہمسایوں کے ساتھ زیادہ مضبوط تعلقات بن گئے ہیں۔‘
البتہ زیمر اور کیٹل سن دونوں جانتے ہیں کہ آخرکار بچوں کو موبائل فون کی ضرورت ہو گی۔
وہ کہتے ہیں جب ان کے بچے تقریباً 15 سال کے ہوں گے، تب وہ ان سے موبائل فون اور سوشل میڈیا کے بارے میں بات کریں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لینڈ لائن ختم کر دیں گے۔
زیمر کہتی ہیں ’بعض خاندانوں میں فون کچن میں لگا ہوتا ہے، یا اگر کہیں جانا ہو تو وہی فیملی فون ساتھ لے جاتے ہیں۔
’اس لحاظ سے ٹن کین کا متبادل ہمیشہ موجود رہے گا۔ جب تک میں یہ کنٹرول رکھ سکوں کہ فون کب بجے اور کون کال کرے، تب تک یہ ہمارے گھر کا ایک لازمی حصہ رہے گا۔‘
© The Independent