وہ جوان ہے، ڈیجیٹل میدان کا ماہر، دلکش، ایل جی بی ٹی پلس (ہم جنس پرستوں) کا حامی اور داڑھی والا بھی۔ وہ ترقی پسند، انقلابی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لیے مستقل چیلنج اور پریشانی کا باعث بھی ہے تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ زیک پولانسکی دراصل برطانیہ میں ظہران ممدانی کا ہم منصب ہے، جو حال ہی میں نیویارک کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔
دونوں یقیناً مصروف شخصیات ہیں لیکن اگر وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال سکیں، مثلاً کسی ماحولیات سے متعلق عالمی کانفرنس یا فلسطین کے حق میں ہونے والے کسی جلسے کے موقعے پر، تو انہیں احساس ہوگا کہ ظہران اور زیک کے درمیان مماثلتیں سطحی نہیں بلکہ گہری ہیں۔
ممدانی کو ’ٹرمپ کے لیے بدترین خواب‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں، لیبر پارٹی کی مایوسی اور عوامی بددلی کے باعث گرین پارٹی کے عروج نے کم از کم یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ پولانسکی بھی کیئر سٹارمر کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔
ممدانی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کی نسل ہے۔ 34 سالہ ممدانی اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے بوجھ تلے دبی ہے مگر پچھلی نسلوں خصوصاً ’بیبی بومرز‘ (دوسری عالمی جنگ کے بعد 1946 سے 1964 کے درمیان پیدا ہونے والوں) کی طرح اس کے فوائد سے محروم رہی ہے۔
وہ ایک عام اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں اور نیویارک کے عام شہریوں کی مشکلات کو بخوبی سمجھتے ہیں، جو اس شہر میں رہنے کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتے۔
انہوں نے ’افورڈیبلٹی‘ (قابل برداشت زندگی) کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی اور جیتے، جس میں انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بس کے کرائے ختم کریں گے، شہر کی اپنی گروسری دکانیں کھولیں گے، کرایوں پر پابندی لگائیں گے، کم از کم اجرت کو دوگنا کریں گے اور بچوں کی نگہداشت مفت کریں گے اور وہ یہ سب امیروں پر ٹیکس بڑھا کر کریں گے۔ تقریباً یہی نکات پولانسکی کی گرین پارٹی کے منشور کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔
یہ پالیسیاں نہ صرف ٹرمپ بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے محتاط اور عمر رسیدہ رہنماؤں کے لیے بھی ناقابل قبول ہیں، جو ڈیجیٹل دنیا سے نابلد اور نئی نسل سے کٹے ہوئے ہیں۔
ان میں اینڈریو کومو (جنہیں ممدانی نے شکست دی)، چک شومر، نینسی پلوسی اور یقیناً جو بائیڈن شامل ہیں۔ کملا ہیرس بھی صرف جزوی طور پر اس پرانی نسل سے ایک پل بن سکتی ہیں، لیکن مکمل متبادل نہیں۔
اسی طرح کا منظر برطانیہ میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، اگرچہ وہاں پارٹی ڈھانچہ مختلف ہے۔ 42 سالہ پولانسکی ایک طرف سٹارمر (جو ذہنی طور پر اپنی عمر سے کہیں زیادہ بوڑھے لگتے ہیں) سے متضاد نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف 32 سالہ زارہ سلطانہ، 76 سالہ جیرمی کوربن کی جگہ ایک نئی توانائی کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں، جیسے امریکہ میں برنی سینڈرز کا دور اب گزر چکا ہے۔
ممدانی کے برعکس، پولانسکی کے پاس لندن اسمبلی کی نشست کے علاوہ کوئی مضبوط علاقائی بنیاد نہیں۔ تاہم، عوام سے جڑنے کی ان کی صلاحیت، ’ریڈ-گرین‘ (سوشلسٹ اور ماحول دوست)، عوامی پیغامات پہنچانے کا ہنر، پوڈکاسٹس، سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال اور پارٹی قیادت کا درجہ ان سب نے انہیں برطانوی سیاست میں ایک نمایاں قوت بنا دیا ہے۔
پچھلی نسل میں کین لیونگسٹن اور ٹونی بین نے جو کردار ادا کیا تھا، یا جزوی طور پر کوربن نے، اب وہی جگہ پولانسکی نے لے لی ہے۔ ان کے انٹرویوز میں ایک ثابت قدم لہجہ ہوتا ہے، وہ اپنے مؤقف پر پُراعتماد ہیں اور بہترین مباحثہ کرنے والے ہیں۔ وہ بکواس برداشت نہیں کرتے اور سرمایہ دارانہ میڈیا کی ذاتی اور تحقیر آمیز تنقیدیں دراصل ان کے یقین کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیویارک پوسٹ نے حالیہ انتخابات میں ممدانی کو جس طرح ایک ’پاگل، خطرناک مارکسسٹ سوشلسٹ‘ کے طور پر پیش کیا، جو آسمان کو چھوتی عمارتوں کے بیچ ہتھوڑا اور درانتی اٹھائے کھڑا ہے، وہ ان کے میڈیا میں اثر و رسوخ کی ایک واضح نشانی ہے۔ مگر انہیں اس کی پروا نہیں۔
سٹارمر اور بائیڈن کے برعکس پولانسکی کی طرح وہ بھی پریس سے خوفزدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولانسکی اب نائیجل فراج کے لیے وہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو ممدانی ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یعنی ایک ’خطرناک‘ شخصیت کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں، جو بظاہر تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔
کیا پولانسکی بھی ’ممدانی جیسا کمال‘ برطانیہ میں دکھا سکتے ہیں؟ اگر موجودہ لیبر قیادت کی نالائقی جاری رہی تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کے بعد سے انہوں نے گرین پارٹی کی حمایت کو تین گنا بڑھا دیا ہے۔ اگر کچھ حالیہ سروے اور قیاس آرائیاں درست ثابت ہوئیں تو چند سالوں میں وہ ریفارم یوکے پارٹی کی حکومت کے مقابل حزب اختلاف کے رہنما بن سکتے ہیں۔
میں اس نتیجے پر شرط نہیں لگاؤں گا لیکن سیاست تیزی سے غیر متوقع ہو رہی ہے۔ ممدانی کی طرح پولانسکی کو بھی اب سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent