امریکہ میں سال 2008 کی صدارتی انتخابی جنگ کافی شدید تھی۔ باراک اوباما کے مسلمان ہونے کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئیں۔ ان کے حریف، جان میک کین کی ٹیم نے عوامی رابطوں کے ذریعے اوباما کے مذہبی پس منظر کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے۔
پھر کولن پاول کو ٹی وی پروگرام میں آکر واضح کرنا پڑا کہ اوباما مسلمان نہیں ہیں، تاہم اس موقعے پر انہوں نے ایک ایسا سوال اٹھایا، جو اب بھی جواب طلب ہے۔ پاول نے پوچھا: ’اگر اوباما مسلمان ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا اس ملک میں مسلمان ہونا ٹھیک نہیں؟‘
17 سال بعد، یہ سوال ایک مرتبہ پھر نیویارک کے میئر کی دوڑ میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ امریکی میگزین ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اس کی وجہ ایک مسلمان ظہران ممدانی تھے۔ آئیں دیکھیں کہ انہیں کس قسم کے اسلاموفوبیا کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے مخالف امیدوار اینڈریو کومو کے حامی اور یہود مخالف مہم کے سابق خصوصی نمائندے ایلی کوہنیم نے 11 ستمبر 2001 کو ٹوئن ٹاورز کی جلی ہوئی تصویر پوسٹ کی اور لکھا: ’کبھی نہ بھولنا۔ ووٹ اینڈریو کومو اور شہر کو بچاؤ۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب اخبار ’نیویارک پوسٹ‘ نے ممدانی کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے سخت سرخیوں کا استعمال کیا، جیسے ’حماس کا تباہی کا ہتھیار۔‘ کومو نے خود ایک انٹرویو میں پوچھا کہ ’کیا ایک اور نائن الیون کے ہونے پر کوئی ممدانی کو میئر کے عہدے پر تصور کر سکتا ہے؟‘
ظہران ممدانی کی ٹیم میں درجنوں مسلمان شامل ہیں، جنہوں نے نفرت کا سامنا کیا۔
اس کی ایک وجہ ممدانی کا فلسطین کا حامی ہونا ہے۔ ان کے ناقدین نے انہیں اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے دوران اینٹی سیمیٹک (یہود دشمن) قرار دے دیا ہے۔ امریکہ میں سیاسی رہنماؤں کے لیے یہ کہنا اب اتنا موزوں نہیں رہا کہ وہ مسلمان ہیں۔
سیاسی حملوں کے علاوہ بل ایکمین اور مائیکل بلومبرگ جیسے ممتاز ارب پتی ان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنے وسائل مختص کرتے ہیں۔
پرائمری کے دوران پرو-کومو گروپ نے ممدانی کی داڑھی کو گہرا اور گھنا کرنے والی میمز بنائیں۔ امیدواروں کے ٹی وی مباحثوں کے دوران سٹیج پر حریفوں نے ان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزام لگائے۔
چند ماہ قبل ممدانی کی ابتدائی فتح کے بعد جارجیا کی کانگریس کی رکن ٹیلر گرین نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں سٹیچو آف لبرٹی کو ایک سیاہ برقعے میں ڈھانپا ہوا دکھایا گیا جبکہ فلوریڈا کے رپبلکن کانگریس مین رینڈی فائن نے کہا کہ ممدانی شہر میں اسلامی خلافت قائم کر دے گا۔
پچھلے ہفتے ممدانی نے، شہر کے کئی مسلمانوں کے ہمراہ، برونکس میں ایک مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اسلاموفوبیا کے بارے میں 10 منٹ کی آنسوؤں سے بھری تقریر کی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 9/11 کے بعد انہیں ایک ہوائی اڈے پر پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پوچھا گیا کہ کیا ان کا نیویارک پر حملے کا ارادہ تو نہیں؟
انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک خالہ نے حجاب پہننے سے خوف محسوس کیا، ایک ہم جماعت پر مخبر بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کی ٹیم کے رکن کے گیراج میں ’دہشت گرد‘ کا لفظ سپرے سے پینٹ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیویارک میں اگر آپ مسلمان ہیں تو بے عزتی کی توقع سکتے ہیں۔ بہت سے نیویارکر اس کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ اس بے عزتی کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔
نیویارک شہر تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کا گھر ہے، جو ملک کی کل مسلم آبادی کا تقریباً چوتھائی حصہ ہیں۔ شہر کی تاریخ میں کسی بھی میئر کے امیدوار نے مسلمانوں تک پہنچنے کے لیے اتنی محنت نہیں کی، جتنی ظہران ممدانی نے کی۔
امریکہ کے ایک تہائی مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں۔ نیویارک شہر میں بہت سے مسلمان ٹیکسی ڈرائیور، حلال خوانچہ فروش اور دفاتر میں صفائی کے کام پر مامور ہیں۔ ان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی ظہران ممدانی سے توقعات قدرتی ہیں۔
نیویارک میں مسلم امیدوار کے طور پر ان کی کوششوں اور ان پر ہونے والے حملوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقی اور مستقل چیلنج ہے، جسے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید توجہ کی ضرورت ہے۔