افغانستان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان اپنی سلامتی یقینی بنائے گا: خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آج استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے حوالے سے کہا ہے کہ ناکامی کی صورت میں ’فوجی آپشن‘ استعمال کرنا پڑے گا۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آج استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر دراندازی جاری رہی تو پاکستان اپنی سلامتی یقینی بنائے گا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے ہماری سرزمین پر حملے نہ ہوں جسے افغان طالبان مانتے ہیں لیکن تحریری طور پر ضمانت نہیں دینا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں ’اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اور دراندازی ہوتی رہی تو فوجی آپشن استعمال کرنا پڑے گا۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں امن مذاکرات شروع ہوئے اور 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔

بعد ازاں 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور بغیر کسی حتمی معاہدے کے اختتام پذیر ہوا تھا۔

پاکستان نے 29 اکتوبر کو استنبول مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی، تاہم 30 اکتوبر کو میزبان حکومت کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا، جس کے بعد جاری کیے مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ فریقین نے سیزفائر کو برقرار رکھنے اور ایک نگرانی اور تصدیق کا نظام بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس کا حتمی فیصلہ چھ نومبر کو استنبول میں ایک اجلاس میں کیا جائے گا۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا نے بدھ کو رپورٹ کیا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک افغان طالبان کی قیادت سے دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے ترکی روانہ ہو گئے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ استنبول میں ہونے والے تیسرے دور میں افغان وزیر دفاع نہیں آ رہے، اس لیے وہ بھی شرکت نہیں کر رہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا مشیر قومی سلامتی امور مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں تو انہوں نے تائید نہیں کی بلکہ کہا کہ ’ورکنگ گروپ ان مذاکرات میں شریک ہوں گے۔‘

بقول وزیر دفاع: ’ترکی اور قطر کی کوششوں سے یہ مذاکرات ہو رہے ہیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آخری مذاکرات ہیں لیکن مذاکرات میں پیش رفت کا امکان کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر پیش رفت رد کر دی تو پھر مذاکرات لاحاصل ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’(افغان) طالبان سے جب مطالبہ کرتے ہیں تو گول مول بات کرتے ہیں اور تحریری یقین دہانی سے اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ انڈیا کا کابل پر اثر رہا ہے اور انڈیا نہیں چاہے گا کہ یہ کامیاب ہوں۔ انڈیا کی دلچسپی یہ ہے کہ پاکستان کو یہاں سے دہشت گردی کے ساتھ الجھائے رکھے۔ گذشتہ مذاکرات میں بھی پہلے وہ مان جاتے تھے، پھر انہیں کوئی ٹیلی فون آتا تھا تو وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔‘

پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے ہیں، جنہیں انڈیا کی سرپرستی حاصل ہے، تاہم افغان طالبان حکومت اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے مزید کہا: ’ٹی ٹی پی ملوث تو ہے لیکن حالیہ چند ہفتوں میں ہونے والے حملوں میں 55 فیصد افغان شہری ملوث تھے، جس کا مطلب ہے کہ افغان بذات خود اس جنگ میں ملوث ہیں۔ پاکستانی طالبان اب کم رہ گئے ہیں۔ اب یہ ہائبرڈ طالبان ہیں، جس میں افغان بھی ہیں اور پاکستانی بھی۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق استنبول میں آج سے ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے دوران ان معاملات کو باضاطہ فریم ورک میں لایا جائے گا، جن پر مذاکرات کے پہلے دو ادوار میں گفتگو ہوئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوحہ اور استنبول میں جو معاملات طے ہوئے تھے، اسے باضابطہ فریم ورک میں لایا جائے گا کہ افغان طالبان دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر بھی ختم کریں گے، وہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بھی ختم کریں گے اور لاجسٹک سپورٹ بھی ختم کریں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اب افغان طالبان کو آزاد ریاست کے طور پر فیصلہ کرنا ہے، کسی کی پراکسی بن کر فیصلہ نہیں کرنا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب طالبان فیصلہ کریں تو وہ فیصلہ خطے کے عوام کے حق میں ہو، انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ افغان طالبان اب گروہ یا جتھا نہیں رہے بلکہ ایک ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لیکن قطر اور ترکی اب پاکستان اور افغانستان کے مابین ضامن رہیں گے۔‘

افغان امور کی ماہر صحافی سمیرا خان سمجھتی ہیں کہ اگر بات صرف بیانات اور وعدوں تک محدود رہی تو یہ موقع بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’استنبول میں ہونے والے پاکستان افغانستان مذاکرات ایک اہم مرحلہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی، سرحدی کشیدگی اور دہشت گردی کے خدشات نے صورت حال کو پیچیدہ بنا رکھا ہے۔ ان مذاکرات کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان طالبان جذبات اور کھوکھلی دھمکیوں سے ہٹ کر زمینی حقیقتوں کو تسلیم کریں، مشترکہ نگرانی کے قابل عمل طریقہ کار پر اتفاق کریں اور اعتماد سازی کے اقدامات کو ترجیح دیں۔ اگر بات صرف بیانات اور وعدوں تک محدود رہی تو پھر یہ موقع بھی ضائع ہو سکتا ہے۔‘

بقول سمیرا خان: ’استنبول مذاکرات تلخ تجربات کے باوجود ایک نئے آغاز کا موقع ہیں، لیکن مستقبل کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ الفاظ کتنی تیزی اور سنجیدگی سے عملی شکل اختیار کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان