سینیٹر عرفان صدیقی کو پہلی مرتبہ میں نے اس وقت 2019 میں قریب سے دیکھا جب انہیں گرفتار کیے جانے کے بعد اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔
وہ بظاہر پراعتماد نظر آ رہے تھے لیکن ہاتھ میں قلم لیے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے نظر آئے۔ یہ واقعہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کا ہے جب عرفان صدیقی کو ایک مقدمے کے سلسلے میں جیل جانا پڑا تھا۔
میں اس وقت صرف یہ جانتی تھی کہ وہ مسلم لیگ ن کے رہنما ہیں لیکن ایک استاد بھی رہے ہیں۔
تقریبا 80 سال سے زائد برس کے عرفان صدیقی نے عمر کا بیشتر حصہ بطور استاد گزارا، وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں اردو زبان پڑھایا کرتے تھے۔
جہاں ان سے پڑھنے والے طلبا کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی وہیں ان میں سے ایک آرمی چیف عاصم منیر بھی تھے۔ یہ بات انہوں نے ایک نشست میں مجھے بتاتے ہوئے کہا ’یہ جو نئے آرمی چیف بنے ہیں وہ میرے شاگرد رہے ہیں۔ بلکہ میرے ان کے والد سے کافی اچھے مراسم تھے۔‘
عرفان الحق صدیقی، فیلڈ مارشل کی طرح دیگر سینکڑوں سول اور فوجی بیوروکریٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سروس انجام دینے والوں کے استاد رہے۔ وہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور جماعت اسلامی کے مرحوم رہنما اور دانش ور نعیم صدیقی کے بھانجے تھے۔
ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ وہ مصنف، دانشور، نثر نگار، شاعر اور صاحب طرز کالم نگار بھی تھے۔
انہیں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں 26 جولائی 2019 کو جمعہ کے دن تھا گرفتار کیا گیا تھا۔ اپنی حراست کی کہانی انہوں نے بعد میں ایکس پر شیئر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے خوفناک دہشت گرد کی طرح آدھی رات کو گھر سے اٹھایا گیا۔ رات تھانے میں رکھ کر اگلے دن ہتھکڑی لگا کر ایک اے سی کی ’عدالت‘ سے چودہ روزہ ریمانڈ لیا گیا اور اڈیالہ جیل میں دہشت گردوں، قاتلوں، منشیات فروشوں اور سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کے لیے مخصوص ’ہائی سکیورٹی بلاک‘ کی ایک کھولی (قصوری چکی) میں ڈال دیا گیا جہاں پہلے ہی چھ قیدی ٹھنسے پڑے تھے۔‘
عرفان صدیقی نے یاد کیا کہ ’میری چھوٹی بیٹی اور بیگم کے بازؤں پر چوٹوں کے نشان آج بھی موجود ہیں جنہیں پولیس نے دھکے دے کر سڑک پر گرا دیا تھا۔ تب عمران خان کی حکمرانی تھی جنہیں شاید میری کسی تحریر پر غصہ آگیا تھا۔‘
انہوں نے عمران خان کے لیے قیدخانے سے بچنے کی دعا کی لیکن ان کی مسلم لیگ ن کی حکومت میں انہیں اڈیالہ جیل ضرور پہنچا دیا۔ ان کا لکھنا تھا ’اللہ کرے عمران خان چھے دوسرے سکہ بند ملزموں کے ساتھ اسی قصوری چکی کے کھردرے ننگے فرش پر نہ پڑے ہوں جس کی سیلن زدہ چھت سے جھولتا پنکھا ہوا کے بجائے طرح طرح کی آوازیں دیتا اور جس کے اندر ہی رفع حاجت کے لیے کموڈ نصب ہو۔‘
انہوں نے درس و تدریس کا شعبہ چھوڑ کر صحافت کا رخ کیا اور مختلف اخبارات، خصوصا روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کی۔ اس کے بعد وہ سیاست میں آئے اور پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی، جہاں سے وہ مارچ 2021 میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ صدر مملکت رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے نہایت قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ نواز شریف کے ساتھ ان کا تعلق محض سیاسی نہیں بلکہ ذاتی بھی تھا۔
سال 2013 میں حکومت پاکستان نے انہیں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا، جہاں انہوں نے رابطہ کار کے طور پر خدمات انجام دیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی ایوان بالا (سینیٹ) میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر تھے اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چئیرمین بھی تھے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وہ میرے لیے ایک سیاسی رہنما کم اور ’دوست‘ زیادہ بنے۔ جہاں بھی ملتے مجھ سے پوچھتے ’تم نے کچھ کھایا بھی ہے یا ایسے ہی گھوم رہی ہو؟‘ کسی سے ملوانا ہوتا تو ٹیلی فون کرتے اور کہتے فورا پہنچو۔
تقریبا چار سال قبل ایک روز پارلیمان میں سینیٹ اجلاس کے بعد انہوں نے ٹیلی فون پر کہا کہ ’مجھے پکوڑے کھانے ہیں۔ تم لوگ کچھ دیر میں فارغ ہو جاؤ گے تو میں آوں گا۔‘ اس کے بعد سے وہ ہمارے ہاں آتے رہے اور کبھی اپنے ہاتھوں کے پکوڑے چائے کھلانے ہمیں بلاتے رہے۔
وزیراعظم شہباز شریف سمیت ملک کے اکثر اہم شخصیات نے سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک ایک سنجیدہ مفکر، معلم اور اصول پسند دانشور سے محروم ہوگیا ہے۔
میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عرفان صدیقی نے علم، برداشت، سنجیدگی اور دلیل کو ہمیشہ اپنی تحریر اور شخصیت کا محور بنایا۔ وہ مسلم لیگ ن کے ایک اہم رکن اور قریبی ساتھی تھے، اور نواز شریف اور جماعت کے وفادار ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’عرفان صدیقی کی جماعت کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کا انتقال میرے، علمی دنیا اور معاشرے کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔‘
عرفان صدیقی کے ساتھ ملاقات کے دوران سیاست پر بات تو ہوتی ہے تھی لیکن زیادہ تر کئی دیگر آئیڈیاز پر گفتگو ہوتی تھی۔ کتابیں، شاعری اور تاریخ سے انہیں کافی دلچسپی تھی۔
ان سے آئے روز بات رہتی تھی لیکن کچھ عرصہ قبل انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ انہیں کمر (ریڑھ کی ہڈی) کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری رہتی ہے۔
اکتوبر کی آخری تاریخوں میں انہوں نے کال کی اور بتایا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات یا ان کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے حالیہ بیانات پر ایک کالم لکھ رہے ہیں، یا بھی بتایا کہ ’اب میری طبیعت کافی بہتر ہے جلد ملاقات کرتے ہیں‘ اور اس کے بعد اچانک معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی ہے اور ان کو نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہے۔
سوشل میڈیا اکاونٹ ایکس پر اپنی آخری پوسٹ میں مرحوم نے افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی پر لب کشائی کی اور کہا کہ پاکستان گذشتہ 45 سال سے افغانستان کی صورت خال کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔
’ہم کب تک برداشت کرتے رہیں کہ دہشت گرد پاکستان آ کر ہماری لاشیں گرائیں، ہمارا خون بہائیں اور آرام سے افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں میں جا بیٹھیں۔ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں ہی نہیں، ان کی پناہ گاہوں کو بھی نیست و نابود کر دیا جائے۔‘
تقریبا 10 روز قبل انہوں نے پیغامات کا جواب دینا بند کر دیا۔ میں نے جب ان کے احباب سے رابطہ کیا تو اہل خانہ نے بتایا کہ ’وہ اپنی بیماری سے متعلق زیادہ تفصیل بتانا نہیں چاہتے تھے اور نہیں چاہتے کہ کسی کو ان کی حالت کا اندازہ ہو۔‘
عرفان صدیقی گذشتہ روز سے وینٹیلیٹر پر تھے اور ان کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ ان کی وفات کی خبر ان کے اہل خانہ کی جانب سے رات گئے موصول ہوئی۔
عرفان صدیقی کی نماز جنازہ 11نومبر2025بروز منگل کو سہ پہر چار بجے ایچ الیون قبرستان اسلام آباد میں ادا کی جائے گی۔