خیبر پختونخوا حکومت کی کابینہ نے جمعے کو صوبے کے کسی بھی علاقے میں فوج کی موجودگی، وہاں مبینہ شدت پسندوں کو گرفتار کرنے اور انہیں تفتیش کی غرض سے عدالت میں پیش کیے بغیر حراستی مراکز میں رکھنے کے اختیار سے متعلق آرڈیننس کے خاتمے کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر اپنی اپیل واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی زیر صدارت جمعے کو صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس میں آرڈیننس (ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز) کے خاتمے کی منظوری دی گئی۔
کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مشیر اطلاعات شفیع اللہ جان نے بتایا کہ صوبائی حکومت کو اس آرڈیننس پر تحفظات ہیں۔
تاہم ایک قانونی ماہر کا کہنا ہے کہ چونکہ اس آرڈیننس سے متعلق سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی بھی اپیل دائر ہے لہٰذا جب تک ان اپیلوں پر سماعت نہیں ہوتی یہ آرڈیننس صوبائی کابینہ کے فیصلے کے تحت ختم نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس کے برعکس ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر صوبائی حکومت اس قانون کو واپس لیتی ہے تو سپریم کورٹ میں دائر صوبائی حکومت کی اپیل خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس کی کوئی (قانونی) حیثیت نہیں رہتی۔
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کیا ہے؟
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011 میں وفاقی حکومت کا جاری کردہ ایک آرڈیننس تھا، جو اس وقت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (پاٹا) میں نافذ کیا گیا۔
اس آرڈیننس کے تحت سابقہ قبائلی علاقوں کی سول انتظامیہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے فوج کو طلب کر سکتی تھی اور فوج کو کسی علاقے میں موجود ہونے، وہاں مبینہ شدت پسندوں کو گرفتار کرنے اور انہیں تفتیش کی غرض سے عدالت میں پیش کیے بغیر حراستی مراکز میں رکھنے کا اختیار حاصل تھا۔
اس ریگولیشن کے مطابق سکیورٹی فورسز کسی بھی علاقے میں کارروائی سے پہلے علاقہ مکینوں کو علاقہ خالی کرنے کی پیشگی اطلاع دے گی اور کارروائی کے دوران خواتین، بچوں اور بزرگوں کا خاص خیال رکھا جائے گا۔
اس قانون میں کہا گیا کہ حراستی مراکز کی نگرانی کے لیے دو سویلین اور دو فوجی افسران پر مشتمل بورڈ ہو گا جو زیر حراست افراد کی کیسز کو دیکھے گا۔
اسی طرح قانون کے مطابق حراستی مراکز میں 120 دن سے زائد کسی کو نہیں رکھا جائے گا جبکہ کسی پر تشدد نہیں کیا جائے گا۔
یہ قانون اس وقت قبائلی علاقوں تک محدود تھا لیکن 2019 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گورنر شاہ فرمان نے اس آرڈیننس کو پورے صوبے میں نافذ کر دیا تھا۔
اس آرڈیننس کو پورے صوبے تک نافذ کیے جانے کو میڈیا اور حتٰی کہ صوبائی اسمبلی سے بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔
تاہم اس آرڈیننس کو کچھ عرصے بعد جب پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اس کی کاپی منظرعام پر آئی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس پر تنقید کی۔
آرڈیننس کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھانے کے خلاف 2019 میں سپریم کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ یہ آرڈیننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اسی درخواست پر اکتوبر 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلہ دیتے ہوئے آرڈیننس کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ صوبے میں قائم حراستی مراکز محکمہ جیل خانہ جات کے حوالے کیے جائیں اور مراکز میں موجود قیدیوں کی فہرست فراہم کی جائے۔
تاہم پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا اور 25 اکتوبر، 2019 کو سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران قرار دیا کہ جب تک اس اپیل پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل رہے گا۔
تاحال اس اپیل پر فیصلہ نہیں سنایا گیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل ہے اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس صوبے میں نافذ العمل ہے۔
کیا صوبائی حکومت اس کو ختم کر سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے، جنہوں نے پہلی بار اس آرڈیننس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا تو یہ قانون ختم نہیں ہو سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر حسین گگیانی کے مطابق ’18 ویں ترمیم کے بعد 2011 میں وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت قبائلی علاقوں میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کا نفاذ غیر قانونی ہوگیا تھا لیکن صوبائی حکومت نے ایک ایکٹ پاس کیا جس میں ضم اضلاع میں انہی قوانین کو قانونی حیثیت دی گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اس وقت پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے اور صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کیں۔
شبیر حسین گگیانی کے مطابق ’2019 میں سات سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ ابھی تک نہیں آیا اور اسی وجہ سے یہ قانون اب بھی نافذ ہے۔
‘صوبائی حکومت اپنی اپیل واپس لے سکتی ہے لیکن اس سے قانون ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں وفاقی حکومت کی اپیل بھی دائر ہے اور اپیلوں پر فیصلہ آنا باقی ہے۔‘
دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل علی گوہر درانی کا کہنا ہے کہ یہ آرڈیننس صوبائی حکومت نے اس وقت پورے صوبے میں نافذ کیا تھا اور کابینہ اس کے خاتمے کی منظوری دے سکتی ہے۔
علی گوہر درانی کے مطابق ’صوبائی حکومت جب اس قانون کو واپس لیتی ہے تو سپریم کورٹ میں دائر صوبائی حکومت کی اپیل خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس کی کوئی (قانونی) حیثیت نہیں رہتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2019 میں اسی 2011 آرڈیننس کی توسیع کے لیے صوبائی حکومت نے قانونی حیثیت دی تھی تو اب کابینہ کی منظوری سے وہ آرڈیننس ہی ختم ہو گیا ہے۔