سعودی ولی عہد کا امریکی دورہ آئندہ 80 برس کی راہ متعین کر سکتا ہے

سعودی عرب اور امریکہ کا تعلق اب صرف تیل اور سلامتی تک محدود نہیں رہا۔ جوہری تعاون، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجیز اب اس کا حصہ ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 13 مئی 2025 کو ریاض کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا استقبال کر رہے ہیں (فیاض نورالدین / اے ایف پی)

یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن تاریخ شاذونادر ہی بغیر کسی مقصد کے خود کو لکھتی ہے۔

اگلے ہفتے سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات 1945 کی اُس تاریخی ملاقات کے 80 سال بعد ہو رہی ہے، جب شاہ عبدالعزیز اور صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی USS Quincy پر ملاقات ہوئی تھی۔

اُس ملاقات نے ایسی اسٹریٹجک شراکت کی بنیاد رکھی جو جنگوں، تیل کے بحرانوں اور سیاسی تغیرات کے باوجود برقرار رہی۔

اُس وقت اور آج کے حالات کے درمیان مماثلتیں حیران کن بھی ہیں اور اہم بھی۔

1945 میں دنیا دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نکل رہی تھی۔ امریکہ ایک عالمی طاقت بننے کے دہانے پر تھا۔ سعودی عرب، شاہ عبدالعزیز کی زیرِ قیادت، اپنی سرزمینوں کو یکجا کر کے جدید ریاست سازی کے سفر کا آغاز کر رہا تھا۔ USS Quincy کی ملاقات دو بڑے ستونوں پر مرکوز تھی: مملکت کی سلامتی اور امریکہ کے لیے تیل۔

یہ ملاقات سعودی آرامکو کے قیام کے صرف ایک دہائی بعد ہوئی تھی؛ ایک مشترکہ منصوبہ جو آگے چل کر دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی بنی۔ اگرچہ اب یہ مکمل طور پر سعودی ملکیت ہے، لیکن اس کی کامیابی میں امریکی کردار سے انکار ممکن نہیں۔

آج، ہم ایک نئے باب کے دہانے پر کھڑے ہیں؛ ایسا باب جو آرامکو کی کامیابی کی داستان کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔

اب یہ تعلق صرف تیل اور سلامتی تک محدود نہیں رہا۔ جوہری تعاون، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجیز اب اس کا حصہ ہیں۔ یہ صرف دو طرفہ تعلقات میں بہتری نہیں، یہ ایک اسٹریٹجک جست ہے۔ اور اس کی ٹائمنگ حیرت انگیز ہے: ویژن 2030 اور میک امریکہ گریٹ اگین اپنے اہداف، وسعت اور فوری ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔

سعودی عرب اب ماضی کی تیل پر انحصار کرنے والی معیشت نہیں رہا۔ مملکت سیاحت، صحت، کان کنی اور ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبے میں اپنی حقیقی صلاحیت کو کھول رہا ہے۔ امریکی کمپنیوں کے پاس ان شعبوں میں پہلے قدم اٹھانے کا سنہری موقع ہے اور ابتدائی سرمایہ کاری، علم کی منتقلی اور تعاون کے فائدے سمیٹنے کا بھی۔

مزید یہ کہ پچھلی دہائی میں کیے گئے جرات مندانہ اصلاحات نے وہ تمام خدشات دور کر دیے ہیں جو کبھی سعودی عرب میں کاروبار کرنے کے حوالے سے ظاہر کیے جاتے تھے۔ اور اگرچہ یہ مکمل طور پر مثالی نہیں، لیکن کوئی بھی انصاف پسند شخص، اگر وہ دیانت دار ہو، خواتین کے بااختیار ہونے، رکاوٹوں کے خاتمے، بیوروکریسی میں بہتری اور شہریوں و رہائشیوں کی زندگی کے معیار میں غیرمعمولی بہتری کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

صدر ٹرمپ، جنہیں ’آرٹ آف دی ڈیل‘ کے حوالے سے جانا جاتا ہے، بیوروکریسی کو ترقی کی راہ میں آنے نہیں دیتے۔ ان کی انتظامیہ کی منصفانہ مسابقت کے لیے کھلی پالیسیوں کا مطلب ہے کہ امریکی کمپنیاں سرخ فیتے میں پھنسے بغیر کام کر سکتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک کے لیے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے اچھی خبر ہے۔

تاہم، سلامتی اب بھی بنیادی ترجیح ہے۔ خطہ غیر مستحکم ہے۔ قطر کی سرزمین جہاں امریکہ کا خطے میں سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے پر حالیہ اسرائیلی حملہ ایک مضبوط دفاعی فریم ورک کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

سعودی عرب، جو ایکسپو 2030 اور فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے، اپنے زمینی، فضائی اور سمندری دفاع کو مضبوط بنانے کا پابند ہے۔ تحریری دفاعی معاہدہ صرف مطلوب نہیں ناگزیر ہے۔

سعودی نقطۂ نظر سے، حوثیوں کے حملوں کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا حوثیوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ اور 2022 میں پیٹریاٹ میزائل بیٹریوں کا انخلا تشویش کا باعث بنا۔ تاہم صدر بائیڈن کے دور کے اختتام تک ایک تاریخی دفاعی معاہدے کے لیے مذاکرات تقریباً مکمل ہو چکے تھے۔ یہ دورہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کا موقع فراہم کرتا ہے اور یقینی بناتا ہے کہ مستقبل میں ایسے حملے دوبارہ نہ ہوں۔

سعودی امریکی تعلقات نے کئی امتحانات دیکھے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیونزم کے خاتمے سے لے کر کویت کی آزادی تک، دونوں ممالک نے عالمی چیلنجوں پر تعاون کیا ہے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک قیادتوں کے سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود سعودی عرب کی اسٹریٹجک اہمیت ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ سعودی عرب کوئی ’کیش مشین‘ نہیں بلکہ ایک مستحکم ستون ہے۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات کا نگہبان، خطے کی سب سے بڑی معیشت اور عالمی تیل مارکیٹ کا کلیدی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے سعودی عرب امریکی مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ دورہ محض ایک سفارتی مصروفیت نہیں، یہ ایک تاریخی موڑ ہے۔

سعودی سفارت کاری بھی بدل رہی ہے۔ مملکت نے فلسطین میں دو ریاستی حل کے لیے کوشش کی ہے، غزہ میں مظالم کی مذمت کی ہے، اور سوڈان، یوکرین اور شام میں مذاکراتی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی انسانی امداد اور ترقیاتی معاونت مستقل اور فیاضانہ ہے۔ ریاض اب صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی ثالث کے طور پر ابھر رہا ہے۔

امریکہ کو ایسے شراکت دار کی ضرورت ہے جس کا خطے میں احترام ہو۔ سعودی عرب یہ کردار بخوبی ادا کرتا ہے۔ چاہے پابندیاں اٹھانے کی بات ہو یا امن قائم کرنے کی، امریکی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ ریاض کی ضمانتوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ دہائیوں کے انتشار کے بعد ایک نئی شام کا ابھرنا اس اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔

یہ دورہ رسمی نہیں فیصلہ کن ہے، اگر اسرائیل حقیقی معنوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے پر آگے بڑھنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو وہ اس خطے میں شامل ہو سکتا ہے جسے ولی عہد نے ’نیو یورپ‘ کہا ہے — یعنی انضمام، تعاون اور مشترکہ خوشحالی کا خطہ۔

مواقع کمیاب ہیں اور یہی وقت فیصلہ کن ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ 18  نومبر 2025 تاریخ کا ایک نیا سنگِ میل بنے، محض ماضی کی یاد کے طور پر نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک آغاز کے طور پر۔

بشکریہ عرب نیوز۔ فیصل جے عباس عرب نیوز کے چیف ایڈیٹر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا