نیا آئین، پرانا نظام

27ویں آئینی ترمیم نے آئین کے ڈھانچے کو تبدیل کیا ہے لیکن یہ اختیار بہرحال پارلیمان کے پاس ہے کہ وہ عددی برتری اختیار کرے اور اس کا استعمال بھی۔

(تصویر: کریٹیو کامن)

جمود اور مسلسل جمود۔۔ یوں کہ جیسے ٹھہرے ہوئے پانی پہ کائی جم جائے، ہوا رک جائے، حبس بڑھ جائے، ایسا جمود کہ سفر دائروں میں مقید اور منزل کھوئی رہے۔ جمود ٹوٹے گا تو سفر کا آغاز ہو گا، منزل کا پتہ چلے گا مگر جمود ٹوٹے گا کیسے اور توڑے گا کون؟

کیا کچھ بدل گیا ہے، جو کل جمہوریت کے دعوے دار تھے وہ آج سمجھوتے کو جمہوریت قرار دیتے ہیں اور جو آج جمہوریت کی لڑائی میں مشغول ہیں وہ کل ہائبرڈ نظام کے پروردہ۔۔ چہرے بدل گئے  مگر مصلحتیں نہ بدلیں۔

ستائیسویں آئینی ترمیم نے آئین کے ڈھانچے کو تبدیل کیا ہے لیکن یہ اختیار بہرحال پارلیمان کے پاس ہے کہ وہ عددی برتری اختیار کرے اور اس کا استعمال بھی۔ سینیٹ میں البتہ کم تعداد کے باوجود برتری حاصل کی گئی جو کسی اعتبار سے بھی درست نہ تھا۔

اب ایک نئی عدلیہ وجود میں آچکی ہے، آئینی اور قانونی عدالت جو انتظامیہ کے زیر اثر ہے۔ ماضی کی آزاد عدالتیں مقتدرہ کے گٹھ جوڑ سے کام کرتی رہیں موجودہ بندوبست سے بھی یہی خدشہ ہے۔ نہ کل عدالتیں بظاہر آزاد تھیں نہ آئندہ کی کوئی شُنید ہے۔

جسٹس منیر سے لے کر عطا بندیال تک کی عدالتیں کبھی مقتدرہ اور کبھی سماجی فسطائیت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہیں۔ آمریتوں کو دوام دینا ہو یا غیر آئینی ترامیم کو آئین کا حصہ بنانا ہو، وزرائے اعظموں کو گھر بھجوانا ہو یا تختہ دار پر چڑھانا ہو، ان عدالتوں اور منصفین کرام نے کبھی طاقت وروں کو مایوس نہیں کیا۔۔

ہاں مایوس کیا تو ان لوگوں کو جو جمہوریت کے لئے توانا آواز رہے اور عوام کو کہ جن کے لیے انصاف کا حصول آنے والی تاریخوں تک ٹلتا رہا۔

موجودہ نظام یہ سمجھتا ہے کہ پراجیکٹ عمران کے لیے مقتدرہ نے جہاں میڈیا میں نقب لگائی وہیں ہائبرڈ نظام کے دوام کے لیے عدالتوں کے چہرے بھی تبدیل کیے۔ لہذا اب جب پروجیکٹ بند کیا جا رہا ہے اور نظام کو ریورس گیئر لگایا جا رہا ہے تو انتظامیہ کے بعد عدلیہ اور شاید اس کے بعد میڈیا سے بھی ’تطہیر‘ کا عمل شروع کیا جائے۔

یہ الگ بات کہ نظام کے مُنہ کو ہائبرڈ لگ جائے تو پراجیکٹ کے خاتمے کے بعد آزاد آوازوں کو بھی نظام سے باہر نکالے جانے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔

یہی نہیں سیاست میں سے بھی اختلاف کی جو گنجائش محترم عمران خان کے دور میں تقریباً ختم کر دی گئی تھی اب وہ مزید خاتمے کے در پر ہے۔ گویا ایک ایسا ماحول ترتیب دیے جانے کی خواہش موجود ہے جس میں مکالمے کی گنجائش ختم اور یک نظام یک زبان معاشرے کی تشکیل ممکن ہو۔

یوں بھی میڈیا ادھ مُوا ہو چکا، چُن چُن کر آزاد آوازیں دبائی جا چکیں، جو بچے ہیں ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے یا کوشش ہے کہ وہ بھی اپنی بقا کے لیے کسی ایک کیمپ کا انتخاب کر لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماجی فسطائیت کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی عزت بچاتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے جغادری صحافی مقبول صحافت کا شکار ہو چکے ہیں لہذا دہشت گردی، عالمی امور اور جمہوریت جیسے بنیادی موضوعات پر لکھنے سے خائف نظر آتے ہیں۔ اور یوں خوف کی ایسی فضا ہے جس میں آزادی اظہار کے مواقع کم اور گالم گلوچ کے پلیٹ فارم متحرک نظر آتے ہیں۔

اس کا ایک مظاہرہ ابھی اکانومسٹ جیسے ادارے کی جانب سے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ سے متعلق ایک کالم کی اشاعت کے بعد دیکھنے کو ملا، مغلظات کا ایک طوفان برپا ہوا، کہیں زومبیز کیمرہ ہاتھ میں لیے ہراساں کرتے دکھائی دیے تو کہیں سوشل میڈیا پر ہراسیت کا ایک بازار گرم ہے۔

یہ سوال اب بھی اتنا ہی اہم ہے کہ ریاستی امور کو جس طرح چلایا جاتا رہا اور ان کے ریاستی اور روایتی ’زیر اثر‘ فیصلے جس نقصان کا سبب بنے ریاست آج بھی اسی سحر کے شکنجے میں ہے۔

اس بندۂ ناچیز نے طاقت کے ایوانوں پر تب سوال اٹھایا تھا جب کوئی جسارت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا جبکہ آج بھی بدترین ٹرولنگ کا سامنا ہے تاہم سوال اٹھانا ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم کرتے رہیں گے۔

بہر حال نظام ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا، شخصی ضمانتیں اور تحفظ مل چکے تاہم احتساب سے بالاتر قوتوں کو سوچنا ہو گا کہ جتنے مرضی پروجیکٹ بند کریں اور کھولیں جب تک مکالمے کے پروجیکٹ کا آغاز نہیں ہو گا ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر