جب ہم جاپانی سومو پہلوان سے کشتی لڑتے لڑتے بچے

جاپان کی صدیوں پرانی روایتی کھیل سومو کشتی آج بھی ملک کی شناخت اور ثقافتی ورثے کا اہم حصہ ہے۔

جاپانی سومو پہلوان تین فروری 2023 کو ممبئی میں ڈیمونسٹریشن فائٹ میں حصہ لیتے ہوئے (اے ایف پی)

اوساکا میں لینڈ کرتے ہی کوبے جانے اور جاپان کے دورے کا آغاز کرنے سے پہلے ہی کارنیوال مال میں سومو پہلوانوں کی کشتی دیکھنا مقصود تھی، لیکن اس دوران ہمارے علم میں یہ نہیں تھا کہ ہم خود بھی ایک سومو پہلوان سے کشتی کرنے کے بےحد قریب پہنچ جائیں گے۔

اس کا احوال تو نیچے آئے گا، پہلے ہم آپ کو جاپان کے اس کھیل کے بارے میں بتا دیں جو اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود جاپان۔

بچپن سے جاپان ہمارے لیے ایٹم بموں اور سومو پہلوانوں کی سرزمین تھا۔ اک خاکہ تھا ذہن میں کہ اس سرزمین پر کچھ پہلوان ایٹم بم کی تباہی کا نوحہ پڑھتے ہوئے کاریں، لیپ ٹاپ، جوسر، بلینڈر اور نجانے کیا کیا بناتے ہوں گے۔

سومو کشتی 1500 سال پرانا کلچر ہے۔ صدیوں سے یہاں پہلوان خدا کا نائب سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ کشتی صرف لڑائی نہیں ہے بلکہ خدا کا قانون دنیا میں قائم رکھنے کا اک ذریعہ ہے۔ ان کا ماننا تھا خدا اور پہلوان دنیا کی خراب قوتوں سے اکٹھے نبرد آزما رہتے ہیں۔ آج کا دن صرف اک کشتی دیکھنے کا نہیں تھا بلکہ جاپانی کھانوں، لوک داستانوں اور پوری تہذیب کو جینے کا دن تھا۔

کارنیوال مال سٹیشن سے پیدل 20 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ وسیع و عریض مال کے چھٹے فلور پر سومو کا ہال بھی تھا اور سینیما ہال بھی تھا۔ ٹیرس سے ارد گرد کے ہائی رائز اور شہر کی روشنیاں عیاں تھیں۔ سومو ہال کے باہر یادگاری تحفوں کی دکان اور ریسیپشن تھی۔

ٹکٹ چیک کرکے اک بینڈ کلائی پر باندھ دیا گیا۔ سنیک اور ایک ڈرنک مفت تھی۔ کوکا کولا اٹھا کر مین ہال میں داخل ہوئے تو یہاں اکھاڑے سے زیادہ سینیما کا ماحول تھا۔ ایک طرف اکھاڑا کم سٹیج تھا تو تین اطراف میں لکڑی کے بینچ اور میزیں تھیں جن پر سنیک کا ڈبہ بھی دھرا تھا۔

اس ہال کو ہیراکوزا ہال اور سومو کے اس کھل کو ہیراکوزا بھی کہا جاتا ہے۔ کلاس سسٹم یہاں بھی نمایاں تھا۔ آگے کی طرف مہنگی کرسیاں تھیں اور پیچھے عوام کا دور دورہ تھا۔ کرسیاں بھرتی جا رہی تھیں اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کہ بچپن سے جو کھیل لاشعور میں مختلف اطوار سے پراسیس ہو رہا تھا وہ اصل میں کیسا ہو گا، گوشت کے پہاڑوں کے ٹکراؤ سے کوئی خونی معرکہ ہو گا یا محض کاروائی پوری کرنے کے واسطے ہلکی پھلکی نورا کشتی ہو گی۔

خیر انتظار ختم ہوا، ہال کی بتیاں گل ہو گیئں اور اکھاڑا روشن ہو گیا۔ پر یہ کیا موٹے پہلوانوں کے بجائے اک جاپانی حسینہ فر فر انگریزی بولتی سٹیج پر آن کھڑی ہوئی اور شام کو اپنے حسن اور گپ شپ سے گرمانے لگی۔ کٹسورا فیومیرن نامی یہ خاتون راکوگو کی ماہر تھی۔ راکوگو لوکل سٹینڈاپ کامیڈٰی ٹائپ شے ہے۔ جس طرح میڈم نور جہاں کے کانسرٹ میں پہلے کوئی لوکل گلوکار آ کر مداحوں کو وارم اپ کرے، اسی طرح یہ خاتون آج کی شام کو وارم اپ کیے دے رہی تھی۔

اس شوخ اور چنچل لڑکی نے کشتی کی کہانی سنائی کہ کیسے صدیوں سے یہ کھیل جاپان کی تہذیب کا حصہ ہے اور یہ محض دو پہلوانوں کی مڈھ بھیڑ نہیں بلکہ جاپانی تہذیب میں اس کی روحانی اہمیت بھی ہے۔ دور دور سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ انکا مقصد محض پہلوانوں کے ٹاکرے سے لطف اندوز ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس عظیم الشان تہذیب کو جذب کرنا ہوتا ہے جو صدیوں سے یہاں راج کر رہی ہے۔

اس کے بعد اس نے آج کے پہلوانوں کا تعارف کروایا اور وہ ایک ایک کرکے اسٹیج پر آتے گئے۔ کیسا تھل تھل کرتا وجود تھا ان گوشت کے مارے لوگوں کا۔ ان کی چھاتیاں یوں لٹکی ہوئی تھیں جیسے کسی 80 سالہ بڑھیا کی ہوں مگر سائز کسی چھ بچوں کی ماں کا سا تھا۔ نیچے پیٹ اور ٹانگوں پر بھی منوں گوشت تھا مگر لچک اتنی تھی کہ دونوں ٹانگوں کو اطراف میں پھیلا کر ماتھا فرش پر لگا کر دکھایا۔ انہوں نے نارنجی، سبز، پرپل اور گلابی رنگ کی چمکتی ہوئی بیلٹ کم زیر جامے پہن رزیر جاموں کو اس طرح باندھ رکھا تھا کہ کشتی کے دوران کھل کر شرمندگی کا باعث بھی نہ بنیں اور اس قدر کسے بھی نہ ہوں کی لڑائی میں مشکل پیدا کریں۔

چاروں اکٹھے سٹیج پر آئے تو جیسے پورا ہال بھر سا گیا۔ گورے گورے گوشت کے پہاڑوں پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ چہروں پر ہرگز کرختگی اور سفاکی نہ تھی بلکہ اک خوش آمدیدی مسکراہٹ تھی کہ آؤ لوگو خدا اور پہلوانوں کی بدی سے جنگ کا استعارہ دیکھو اور اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ کر اس جناتی قوم کی تہذیب کے بارے میں لوگوں کو بتلاؤ۔

واکا، مٹسو، کیکو اور جو۔ عمریں 42 ،35 ،31 اور 29 سال تھیں مگر سب اپنی عمر سے چھوٹے ہی لگتے تھے۔ بےپناہ گوشت اور چربی کے باوجود چہرے کے تاثرات میں معصومیت تھی۔ سب نجیب اطرفین جاپانی تھے ماسوائے کیکو کے جس کی ولدیت میں ایک خانہ جاپانی تو دوسرا کینیڈین تھا۔

ان میں سب سے بھاری جو تھا جس کا وزن 485 پاؤنڈ تھا۔ صرف 485 پاؤنڈ۔ ایک ڈبہ عجیب سے کھانوں کا اور ڈرنک بھی ملی تھی۔ کھانے کا ڈبہ دراصل بینٹو تھا۔ بینٹو جاپانی کلچر میں کھانا پروسنے کا اہم اور آسان طریقہ ہے۔ اس کا مطلب ہی سہولت ہے۔

اک ڈبے میں چاول، سلاد اور سبزی سے ایک وقت کے کھانے کی سرونگ ہوتی ہے اور وہ بھی نارمل درجہ حرات پہ، نہ کم نہ زیادہ۔ پہلے تو یہ خیال آیا کہ پورک ہی نہ ہو پھر تسلی ہوئی کہ ویجیٹیرین ہے۔ تسلی سے مگر زبان کا چسکا تھوڑی بھر پاتا ہے۔ پھیکا بھی چلو قابل برداشت ہوتا ہے مگر ذائقہ ایسا کہ زباں کو گراں ہی گزرے تھا۔ چاول، مٹر، انڈا، بانس کے پتے، گوبھی، گاجر اور پیاز سے بنے اک نوالے جتنے پورشن پلاسٹک کی ٹرے کے چھوٹے خانوں میں ہمارے کسی کام کے نہ تھے۔

پہلوانوں کو تو ہرگز یہ نہ کھانے چاہیے۔ پہلوانوں نے پہلے 1500 سال کی کچھ روایات کو جسمانی اعضا کی حرکات سے ظاہر کرکے دکھایا اور کھانے کا غم کچھ غلط کیا۔

باری باری آتے جاتے تھے اور کبھی ٹانگوں تو کبھی جانگوں سے عجیب حرکتیں کر کے ماضی اور مشیعت سے منسوب کرتے جاتے تھے۔ ہال کی بتیاں بھی ان کی حرکات کے ساتھ بجھتی، جلتی چمکتی اور ٹمٹماتی تھیں۔ ساتھ ہی ایسی آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی تھیں کہ لگتا تھا کہ ہم اسی دور میں پہنچ گئے ہیں جب معاشرے کی جارحیت اور جبر اس کھیل میں ضم ہو رہے تھے۔ اس کے بعد سومو کشتی کی تاریخ پرفارم کرکے دکھائی گئی کہ کیسے اس کھیل کے داؤ پیچ وجود میں آئے اور جو پورا میچ کھیلا جائے گا اس کی جزئیات کیا ہوں گی۔

اب اصل کھیل کی باری تھی۔ پہلے کھیل کے قوانین سمجھائے گئے پھر اک ریفری آن کھڑا ہوا جس کی عمر اور حالت دونوں پتلی تھیں۔ سفید بالوں کی چوٹی کم جوڑا سر پر دھرا تھا اور وہ اس گھن کی مانند لگتا تھا جس کو گیہوں کے ساتھ پس جانا تھا۔

پہلے واکا اور جو میں گھمسان کا رن پڑا۔ رن سے پہلے جھک کر اک دوسرے کو یوں سلام کیا جیسے برسوں کی شناسائی ہو اور مل کر کوئی دکان کھولنی ہو۔ کوئی سفوف یا نمک سا بھی لڑائی کے رنگ میں اڑایا۔ 15 فٹ کا دائرہ کبھی اتنا چھوٹا لگتا کہ پہلوانوں کے وجود سے ہی بھر جاتا اور کبھی اتنا بڑا ہو جاتا کہ پورا زور لگانے پر بھی دونوں پہلوان مخالف کو اس سے باہر نہ نکال پاتے۔

کبھی گلابی جانگیے والا واکا غالب آجاتا تو کبھی نارنجی جانگیے والا جو جیتنے کے قریب ہوتا۔ جیت اس کی ہونی تھی جو دوسرے کو رنگ سے نکال باہر کرتا (چاہے دھکیل کر یا بیلٹ سے پکڑ کر) یا پھر پاؤں کی تلیوں کے علاوہ جسم کا کوئی بھی حصہ زمین سے لگا ڈالتا۔ تین میں سے دو راؤنڈ جو نے جیت ڈالے۔

اب باری تھی کیکو اور مسٹو کی۔ کیکو نام اور شکل سے معصوم لگتا تھا اور دہری شہریت کا حامل تھا سو ہمارا پسندیدہ ٹھہرا۔ دونوں گتھم گتھا ہوئے مگر ان باتوں کا لحاظ کر کے کہ بال کھینچنا، مکا مارنا، کانوں اور جانگوں پہ مارنا اور گلا دبانا قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔ ان طریقوں کے بغیر ہی مقابل کو پچھاڑنے پر جیت مقدر ٹھہرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیکو ہار گیا اور فائینل مسٹو اور جو کے درمیان قرار پایا۔ دونوں پھر یوں ملے جیسے دو قریبی عزیز کسی تیسرے کے بیٹے کے ولیمے پہ مل رہے ہوں۔ اب تو آج کا فاتح طے ہونا تھا سو مقابلہ سخت تھا۔ گو آج تک کبھی کبڈی کا میچ لائیو نہیں دیکھا تھا مگر اک پنجابی کے اجتماعی لاشعور میں موجود تو تھا۔ کیسے کسے ہوئے اور صحت مند جسم والے ہوتے ہمارے کھلاڑی۔ صدیوں کا قصہ تو شاید وہ بھی ہے پر سوال یہ ہے کہ کتنے سیاح پاکستان آتے اور ان میں سے کتنوں کو لاہور آنے پر اس کھیل اور اسکی روایات سے روشناس کرانے کا انتظام موجود ہے؟ جو کا پلڑا بھاری رہا اور وہ آج کا فاتح ٹھہرا۔ اس نے سٹیج سے اتر کر ہال کا دورہ لگایا اور سب کی ہتھیلیوں سے اپنے ہتھیلی مس کر کے واپس سٹیج پر جا پہنچا۔

اب اک اور مزیدار مگر خونخوار مرحلہ تھا۔ پہلوانوں کے لیے نہیں بلکہ سامعین کے لیے۔ شروعات والی حسینہ نے قرعہ ڈالا ان لوگوں کا جو سومو پہلوانوں سے دنگل کریں گے۔ ہم نے بھی نام لکھوا کر اور اپنے پرزوں کی سلامتی کی ذمہ داری خود لے کر پرچی وصول کرلی۔ ساتھ ہی ان دیکھا خدا ریلیونٹ کر لیا اور دعا جاری کر دی کہ آج ہم بدقسمت ٹھہر جائیں اور قرعہ ہمارے نام نہ نکلے۔ دعا قبول ہو گئی اور ہم نے اک دس سال کے بچے، اک 30 ،35 سالہ مرد، اک 20 کے پیٹے کی لڑکی اور اک ادھیڑ عمر خاتون کو باری باری پہلوانوں سے نبردآزما ہوتے دیکھا۔

ریڈی میڈ عارضی پہلوانوں کو سومو پہلوان بنانے کے لیے پھولا ہوا لباس پہنایا گیا کہ معاملہ اصل لگے۔ ریفری نے ویسا ہی اشارہ کیا اور کھیل شروع ہوا۔ دس سال کے بچے سے کیکو کی ہار شاید کئی جیتوں پر بھاری تھی۔ ’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ کی مثال 35 ،35 سالہ مرد نے قائم کی اور جس تیزی سے واکا پر حملہ کیا اسی تیزی سے واکا نے اسے رنگ سے باہر کر ڈالا۔

پھر وہ حسینہ دوبارہ سٹیج پر آئی اور سوال جواب کا دور چلا۔ کسی پہلوان کو انگریزی نہ آتی تھی سو حسینہ ہی مترجم بھی ٹھہری۔ ہم نے پہلوانوں سے ان کی خوراک پوچھی کہ اتنا جثہ اور اس قدر پھرتی کا ملاپ ناممکن لگتا ہے۔ اس قدر جسامت کے حامل لوگوں میں سستی آ جاتی ہے اور جسم بے لچک ہوجاتے ہیں تو پھر سومو پہلوان کیونکر اس سے مختلف ہیں؟

خوراک اور کسرت ہی جواب کے طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ جواب حقائق سے زیادہ کنزیومرازم پہ مبنی تھا، خوراک کی نوعیت ک بارے میں گول مول جواب دے کر اک قریبی ریستوران کا پتہ دیا گیا کہ وہاں سے ان پہلوانوں کی خوراک حاصل کر کے نوش فرمائی جا سکتی ہے۔

آخر میں چاروں پہلوانوں کے ساتھ اک تصویر اتاری گئی جس کو دیکھ کر ایک پارٹی کا تو شرمندہ ہونا بنتا ہے۔ وہ کون سی ہونی چاہیے یہ تصور دیکھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔

یہ دو گھنٹے فقط پہلوانوں کی کشتی دیکھنے کے واسطے نہیں تھے بلکہ اس سرزمین سے جڑے اک اہم جزو کو پرکھنے کے واسطے تھے۔ ان دو گھنٹوں کے بعد میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جنہوں نے سومو کشتی دیکھی ہے اور ایک وہ جنہوں نے نہیں دیکھی.

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ