میں تین دہائیوں سے زائد اسلام آباد کی شہری ہوں، مجھے کراچی سے میرے والدین گود میں لائے تھے اس کے بعد میرا شہر بھوربن مری اور اسلام آباد رہے ہیں۔ ان شہروں سے جو انسیت ہے وہ کچھ اور ہی ہے لیکن میرے سامنے یہ شہر یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔
بھوربن اب بھی ویسا ہے جیسا 90 کی دہائی میں ہوتا تھا لیکن مری اور اسلام آباد یکسر بدل گئے۔ ہریالی کم ہو گئی، گرمی کا دورانیہ طویل ہو گیا، اور بہت سے پرندے تتلیاں جو پہلے بکثرت نظر آتے تھے، اب ناپید ہو چکے ہیں۔
پہلے ان شہروں میں بہت سکون ہوتا تھا، اب صرف شور اور دھواں ہے۔ سڑکوں پر ہر وقت ٹریفک، مارکیٹس میں پارکنگ ناپید اور آلودگی نے الگ زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس کے ساتھ مہنگائی، نئے سیکٹرز کا نہ بننا، صاف صفائی کا موثر نظام کے نہ ہونے سے اس شہر کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔
گذشتہ دونوں ہم صحافیوں کی کچھ سفیروں سے ملاقات ہوئی تو ان میں سے ایک نے کہا، ’آپ کا شہر کتنا تبدیل ہو گیا ہے۔ اب مارگلہ ہلز دور سے نظر نہیں آتیں۔ ایک سموگ کی تہہ ان کے اردگرد رہتی ہے جس کی وجہ سے قدرت کے شوقین اس کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔‘
پھر انہوں نے پوچھا کہ ’شہر میں درخت کیوں کاٹے جا رہے ہیں، اسلام آباد کا موسم درجہ حرارت یکسر تبدیل ہو گیا ہے؟‘
میں نے کہا کہ ’یہ سوال تو آپ کو پاکستانی اشرافیہ سے پوچھنا چاہیے، ہم عام شہریوں کی کون سنتا ہے۔ ہم صحافی بس آواز اٹھا سکتے ہیں عمل درآمد تو انہوں نے کرنا ہے جن کے پاس فنڈز، اختیارات اور طاقت ہے۔‘
وہ شہر میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ میں بھی سوچ میں پڑ گئی جب بھی شہر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ درخت کیوں کاٹے جا رہے تو کہا جاتا ہے کہ پیپر ملبری والے درخت کاٹے جا رہے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ سڑکوں کی تعمیر، ایونیوز اور انڈرپاسز، نئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے ہر طرح کے درخت کاٹے گئے ہیں۔
سب سے زیادہ مجھے افسوس چیڑ کے درختوں کے کاٹنے سے ہوا۔ یہ درخت درجہ حررات کو کم رکھنے میں معاون ہے، اور شہر کی خوبصورتی بھی اضافہ کرتا ہے، پر کسی کو ان کی قدر و قیمت کا احساس نہیں۔
مجھے تو اب کچنار اور املتاس کے پیڑ بھی نظر نہیں آتے۔ کچنار تو کھانے میں بھی کام آتی ہے اور املتاس کتنا پیارا درخت ہے۔ پر کیا کر سکتے ہیں ہم کسی کو زبردستی قدرت سے محبت نہیں کروا سکتے۔ ایک درخت کئی سالوں میں پودے سے درخت بنتا ہے لیکن کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اب اسلام آباد میں آپ جہاں سے بھی آپ مارگلہ ہلز کو دیکھنے کی کوشش کریں اس کے سامنے ایک کہرا چھایا ہوتا ہے۔ یہ آلودگی کی ایک تہہ ہے جس نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکی سفارت خانہ روز ایئر کوالٹی انڈکس جاری کرتا ہے لیکن کسی کی توجہ نہیں۔
وہ دن دور نہیں ہم ہمارے حالات بھی لاہور جیسے ہو جائیں گے۔ ہر طرف آلودگی اور سموگ کا راج ہو گا۔ نئے درخت اتنی تعداد میں لگائے نہیں جا رہے جتنی بڑی تعداد میں کاٹے جا رہے ہیں۔ نجی سوسائٹیوں کی بھی اپنی من مانی ہے۔ وہ جو باہر کے ملک میں خوشنما درخت دیکھا وہ یہاں لاکر لگا دیتے ہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ خطے کے ساتھ مطابقت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔ دیسی درخت کاٹ دیے گئے، سجاوٹی چیزوں نے انکی جگہ لے لی۔
میں نے کتنی بار یہ دیکھا ہے کہ جب سربراہان مملکت اسلام آئے ہوتے تو نقلی پھولوں تک کی سجاوٹ کی گئی ہوتی ہے۔ شاید اب ہمارے پاس اسلام آباد میں اصلی قدرتی حسن دکھانے کے لیے نہیں رہا۔
دوسری طرف ٹریفک کا مسئلہ عوام کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔ ہم کسی بھی سیکٹر میں سیدھی سڑک سے داخل کیوں نہیں ہو سکتے، ہمیں ایونیو یا انڈر پاس یا پل سے ہی ہو کر کیوں گزرنا ہے؟ بلیو ایریا میں قائم ایونیو میں لاتعداد مسائل ہیں۔ یہ ایک دم تیز رفتار گاڑی کو سنگل شارپ موڑ پر لے آتا ہے۔ اگر کوئی بہت تیزی میں تو سیدھا نیچے گرسکتا ہے۔
نئی تعمیرات میں گاڑی بہت سست رفتار اور دھیان سے چلائیں انہوں نے راستے کو تنگ کر دیا ہے۔ ہم شہریوں کو یہ کہا گیا تھا یہ نئی سڑکیں بس کچھ سگنل فری کر دیں گی لیکن ہم تو بعض اوقات ایک سیکٹر سے دوسرے سیکٹر میں داخل ہوتے ہوئے آدھا گھنٹہ پونا گھنٹہ بھیڑ میں پھنس جاتے ہیں۔ شہر میں ویسے تو ٹریفک پولیس کم ہی نظر آتی ہے لیکن کسی وی آئی پی ، کرکٹ ٹیم یا غیر ملکی مہمان نے گزرنا ہو تو یہ روٹ لگا کر 35 سے 45 منٹ ٹریفک بند کردیتے ہیں۔ اب آپ نے باتھ روم جانا ہو، ہسپتال یا ایئر پورٹ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔
سب سے زیادہ ایونیو کی ضرورت جی 15 کے پاس تھی لیکن وہاں نہیں بنا۔ اس کے علاوہ انڈرپاس کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں طوفانی بارشیں ہوتی ہیں، وہاں انڈرپاس تو ہونے ہی نہیں چاہییں، لیکن ہماری اشرافیہ کے لیے کنکریٹ ہی ترقی کا نام ہے۔
سری نگر ہائی وے پر ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے، اور اب تو یہ رش معاون سڑکوں تک بھی پہنچ گیا ہے لیکن عوام کی کوئی شنوائی نہیں۔
ماحولیاتی آلودگی، صوتی آلودگی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور ٹریفک جام کی وجہ سے شہری چڑچڑے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔اس شہر کو بچانا ہو گا۔ ٹریفک کا نظام درست کریں، غیر ضروری انڈر پاس پل نہ بنائیں، اسلام آباد میں کثرت سے زلزلے آتے ہیں، یہاں ہر کثیر المنزل تعمیرات نہیں ہونی چاہییں۔
جب کبھی اونچی عمارت میں آگ لگتی ہے تو انتظامیہ کے پاس فائر بریگیڈ کی اونچی سیڑھی تک نہیں ہوتی۔ وی آئی پی روٹس کا خاتمہ کریں اور ٹریفک کی روانی کو بالکل متاثر نہ ہونے دیں۔
سٹیڈیم، پارک، کنسرٹ ہال اور پانچ ستارہ ہوٹل شہر کے باہر بنائیں، تاکہ شہر کے قلب میں زندگی متاثر نہ ہو۔ اس دن کرکٹ ٹیم بلیو ایریا کے پانچ ستارہ ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے اور نیچے چار اطراف کے سیکٹروں کی لوگ بدترین ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے تھے۔
اسی طرح معروف گلوکار کے کنسرٹ کی وجہ سے تین سیکٹروں کے اطراف میں سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام رہا۔ تقریبات کرنا ہے، شوق سے کریں لیکن اس کے لیے عام شہریوں کا سکون روزمرہ کے معمولات تباہ مت کریں۔
ہم ٹیکس دہندگان ہیں، ہم بھی ریلیف کی توقع کرتے ہیں۔ کہاں اسلام آباد کی شامیں رومانٹک ہوا کرتی تھیں، گرم کافی، ڈوبتا سورج، چپس کے ساتھ افغانی ہری چٹنی اور مارگلہ روڈ پر ڈرائیو۔ پر اب تو قدم قدم پر ٹریفک جام میں پھنس کر ایسا لگتا ہے کہ ہم اس شہر میں اجنبی ہیں۔
کاش کہ کوئی میرا پرانا اسلام آباد مجھے لوٹا دے۔