دہلی کے علاقے شاہدرہ میں ایک پیٹرول پمپ ہے جسے دہلی کا پہلا اور سب سے قدیم پیٹرول پمپ ہے مانا جاتا ہے، پمپ کے باہر ایک نیلے رنگ کا بورڈ لکھا ہے جس پر ’1923 سے، دہلی کا سب سے قدیم پیٹرول پمپ‘ تحریر ہے۔
ایک جین خاندان نے اس پمپ کی شروعات 1923 میں چاندنی چاک نوولٹی سنیما کے پاس کی تھی جسے ریلوے لائن میں توسیع کی وجہ سے شاہدرہ منتقل کردیا گیا تھا۔
پیٹرول پمپ کے مالکان کی چوتھی نسل میں راکیشن جین آتے ہیں جن کی عمر 75 سال ہوچکی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کی کہانی 1923 میں شروع ہوئی جب میرے پردادا لالا مام چند، جو ہریانہ کے باروٹ گاؤں کے زمیندار تھے، کو نیویارک کی سٹینڈرڈ آئل کمپنی نے دہلی میں پیٹرول پمپ کھولنے کی پیشکش کی۔‘
اس وقت دہلی میں گاڑیوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی، پہلا پمپ چاندنی چوک کے قریب نوویلٹی سنیما کے پاس لگا۔ چار دہائیوں بعد 1965 میں ریلوے لائن بچھنے کے باعث اسے شاہدرہ منتقل کیا گیا۔ اس وقت شاہدرہ میں کل 40 یا 50 گاڑیاں ہوتی تھیں لیکن آج یہاں تقریباً 10 ہزار گاڑیاں روزانہ ایندھن بھرواتی ہیں۔‘
راکیش نے انڈیپنڈینٹ اردو کو بتایا کہ ’وہ وقت الگ تھا، جب شروعات ہوئی تو تو گنے چنے لوگ پیٹرول بھروانے آتے تھے، شروعات یعنی 1925 کے آس پاس پیٹرول کی قیمت 10 پیسے فی لیٹر قیمت ہوگی، اس وقت پیٹرول کی فروخت فی لیٹر نہیں بلکہ گیلن کے حساب سے ہوتی تھی، جس میں چار لیٹر سے تھوڑا زیادہ پیٹرول آتا ہوگا اور اس وقت پمپ بجلی سے نہیں چلتے تھے بلکہ ہاتھوں سے چلتے تھے۔‘
راکیش اپنی یادداشت دہراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب میں 1965 میں پہلی بار یہاں آیا تو یہ پورا علاقہ جنگل جیسا تھا۔ برسات میں جب پانی بھر جاتا تو ہم پیٹرول ٹینک خالی کر کے انہیں زنجیروں سے باندھ دیتے تاکہ وہ بہہ نہ جائیں۔ بارش ختم ہونے کے بعد پھر سے شروع کردیتے تھے۔‘
راکیشن کے مطابق پیٹرول پمپ کا نام مام چند کے بیٹے کے نام پر’اُگرسین اینڈ سنز‘ رکھا گیا۔ آج یہ پمپ ہندوستان پیٹرولیم کے تحت چلایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب یہ پیٹرول پمپ شروع ہوا تھا تو اس وقت ملک تقسیم نہیں ہوئی تھی اور امریکی کمپنی کا ریجنل دفتر کراچی میں ہوتا تھا، تو ان کے پردادا اس دور میں کاروباری معاملات کے لیے اکثر کراچی جایا کرتے تھے۔
راکیش بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیٹرول پمپ میں ایمبیسیڈر اور فیئٹ کاروں کے دور سے لے کر ماروتی کے عروج اور آج کی جدید کاروں کے زمانے تک سب کچھ دیکھا ہے۔ انہوں نے سکوٹر سے موٹر بائیک کے دور کی تبدیلی بھی محسوس کی ہے۔
دہلی کے کناٹ پلیس میں بھی کئی ایسے پیٹرول پمپ ہیں جو شہر کے سب سے قدیم سٹیشن ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کناٹ پلیس کے کسی پیٹرول پمپ سے اپنی گاڑی میں پیٹرول بھروایا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے دارالحکومت کے سب سے قدیم پمپ سے ایندھن لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے پیٹرول سٹیشن 1940 کے آس پاس شروع ہوئے تھے۔
متحد ہندوستان میں پیٹرولیم تاریخ کے ماہر ڈاکٹر سدھیر بشٹ بتاتے ہیں کہ ’ دہلی میں کئی قدیم پرانے پیٹرول پمپ ہیں، ہم جس دور کی بات کررہے ہیں تو اس وقت جن پتھ پر واقع ’ماڈرن سروس سٹیشن‘ ہوتا تھا جو 1935 کے آس پاس قائم ہوا تھا۔
اس دور میں یہاں انگریزوں کی گاڑیوں میں پیٹرول بھرا جاتا تھا۔ انگریزوں کے راج میں کناٹ پلیس اور صدارتی دفتر کے آس پاس ہی پیٹرول پمپ تھے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ کستوربا گاندھی مارگ کے کونے پر ایک پیٹرول پمپ تھا، یہ سندھیا ہاؤس کے قریب ہے۔ یہاں صرف دو پیٹرول نوزل لگے تھے۔
کئی مورخین یہ مانتے ہیں کہ متحد ہندوستان کا پہلا پیٹرول پمپ 1928 میں ممبی میں برما شیل کمپنی نے قائم کیا تھا، جو بعد میں ’بھارت پیٹرولیم‘ کہلائی۔ اس وقت پیٹرول کی قیمت 6 پیسے سے 12 پیسے فی لیٹر کے درمیان تھی۔
سدھیر بتاتے ہیں کہ اس دور میں ہندوستان میں کوئی تیل صاف کرنے والی ریفائنری نہیں تھی۔ پیٹرول جہازوں کے ذریعے برما (موجودہ میانمار)، ایران اور مغربی ایشیا سے منگوایا جاتا تھا، پھر اسے 40 گیلن کے ڈرموں میں ٹرک یا بیل گاڑیوں کے ذریعے سٹیشن تک پہنچایا جاتا تھا۔ گاڑیوں میں پیٹرول بھرنے کا پورا عمل ہاتھوں سے ہوتا تھا۔
راکیش جین بتاتے ہیں کہ ’اس زمانے میں پیٹرول کی قیمت ایک آنے (6 پیسے) سے دو آنے (12 پیسے) فی لیٹر بھی پیٹرول مہنگا ہوتا تھا کیونکہ عام آدمی کی یومیہ آمدنی ایک روپے سے بھی کم ہوتی تھی۔
اگر گاڑیوں کی بات کریں تو 1920 کی دہائی کے آخر تک متحد ہندوستان میں صرف 15,000 سے 20,000 گاڑیاں تھیں، جن میں سے 6,000 سے 7,000 صرف ممبئی میں تھیں۔ دہلی میں زیادہ تر سرکاری گاڑیاں تھیں یا شہر کے مالداروں کے پاس جن کی رہائشیں نئی دہلی یا پرانی دہلی کے آس پاس تھیں۔ پیٹرول پمپ پر کاروباری خاندان، انگریز افسران اور سرکاری اہلکاروں راجاؤں اور مہاراجاؤں کی گاڑیاں ہی آتی تھیں۔