’جھبیاں کمتر بھونس کہ گوڑی چوکس کرو۔‘ عام لوگوں کے لیے یہ جملہ ناقابل فہم ہو سکتا ہے لیکن یہ دراصل جنوبی ایشیا کی پراسرار اور خفیہ زبان ’پتوڑی‘ ہے، جو کاروباری افراد گاہکوں کی موجودگی میں بولتے ہیں تاکہ انہیں کچھ سمجھ نہ لگ پائے۔
آپ کراچی جائیں،لاہور پنڈی یا مظفرآباد، بڑے سے بڑے کاروباری مراکز میں دکان داروں کو ’پتوڑی‘ آتی ہے۔ یہ زبان کاروباری افراد خاص مقصد کے لیے سیکھتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے سب سے بڑے کاروباری مرکز مدینہ مارکیٹ میں جب دکاندار نے گاہک کے سامنے کوئی خفیہ بات کرنا ہوتی، یا ریٹ کا تعین کرتے ہیں تو وہ اسی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
کاروباری لوگ اس زبان کو ایسے بولتے ہیں جیسے یہ ان کی مادری زبان ہو۔ پتوڑی زبان کب بنی؟ کہاں سے آئی؟ ان کا کوئی معتبر حوالہ تو موجود نہیں لیکن جنوبی ایشیا کے وہ ممالک جہاں ہندی، اردو، پنجابی یا پہاڑی بولی جاتی ہیں وہاں کے بازاروں میں یہ صدیوں سے چلی آرہی ہے۔
پتوڑی کب، کیوں، کسے اور کیسے سکھائی جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے انڈیپنڈنٹ اردو نے مظفرآباد کے سب سے بڑے کاروباری مرکز مدینہ مارکیٹ کا رخ کیا، جہاں کم و بیش 30 ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں۔
پتوڑی چونکہ ایک خفیہ زبان ہے اس لیے اس کے بارے میں اکثر دکان دار بتانے سے گریز کرتے رہے۔
مدینہ مارکیٹ میں وحید احمد 20 سال سے جوتیوں کی دکان کے مالک ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ابتدا میں کچھ پتانے سے گریز کیا لیکن بعد میں ان کا کہنا تھا کہ ’دکانداروں اپنا ایک کوڈ ورڈ بناتے ہیں تاکہ ورکر کے ساتھ بات کرنے میں آسانی ہو۔ اس طرح کسٹمر کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ کچھ کمی ہے۔
’اگر کوئی خریدار کسی پروڈکٹ یا سائز کا مطالبہ کرتا ہے جو ہمارے پاس موجود نہیں، تو ہم سیدھا نہیں کہتے کہ یہ چیز نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہم اپنے ورکر کو مخصوص الفاظ میں اشارہ دیتے ہیں۔‘
وحید نے مزید بتایا کہ کسٹمر کو انکار کرنے کے بجائے ورکر کو متبادل دکھانے کا کہا جاتا ہے۔
’یہ ہمارا اپنا نظام ہے، اس لیے ہم اسے ہر کسی کو نہیں سکھاتے۔ مجھے ذاتی طور پر تقریباً پانچ سال کے بعد جا کے یہ زبان آئی سمجھ تھی تھی۔ مجھے یہ ساتھی دکانداروں نے سکھائی۔
اسی مارکیٹ میں سنار کا کاروبار کرنے والے محمد اشتیاق اس خفیہ زبان ہے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اس زبان کا واحد مقصد کاروبار کو بہتر انداز میں چلانا اور کسٹمر کو مناسب طریقے سے ڈیل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حساب کتاب یا بات چیت کے لیے ہم سیدھی گنتی استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے کوڈ ورڈز رکھتے ہیں۔ مثلاً ون، ٹو، تھری، فور کے بجائے ہم کہتے ہیں ’اکیل‘، ’سوان‘، ’اکوائی‘، ’پھوگ‘، ’بڈ‘ وغیرہ۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس زبان کا دائرہ کار وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ یہ کوڈ ورڈز نہ صرف دکانداروں کے درمیان اعتماد بڑھاتی ہے بلکہ کاروباری مسابقت میں بھی ایک حفاظتی حصار سمجھی جاتی ہے، کیونکہ گاہک کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ پسِ پردہ کس طرح فیصلہ سازی ہو رہی ہے۔‘