پرانی دہلی کی سڑکوں پر رہنے والوں کا ’غم‘

جیسے ہی دن ختم ہوتا ہے ان مصروف گلیوں کو بے گھر لوگ جو مزدوری کرتے ہیں اور رکشہ چلانے والے اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور رات کو یہ گلیاں ان کی پناہ گاہ بن جاتی ہیں۔

انڈیا کے چار سے 500 سال پرانے شہر اور دارالحکومت میں آبادی انتہائی حد تک بڑھ گئی ہے جس نے حکومت کے لیے جانچ اور ان کو ایڈجسٹ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

دارالحکومت دہلی کے تنگ پرانے شہر کا رقبہ 932 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ سات ہزار 835 ہے۔

پرانی دہلی میں بھیڑ ہوتی ہے اور عام طور پر کھچا کھچ بھری رہتی ہے کیوں کہ اس میں تھوک کی اہم مارکیٹیں ہیں۔ جیسے ہی دن ختم ہوتا ہے ان مصروف گلیوں کو بے گھر لوگ جو مزدوری کرتے ہیں اور رکشہ چلانے والے اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور رات کو یہ گلیاں ان کی پناہ گاہیں بن جاتی ہیں، وہ عارضی خیموں میں سڑک پر سوتے ہیں۔

کسی کو عام طور پر سڑکوں کے کنارے رہنے والے بے گھر لوگ مل سکتے ہیں کچھ نے تو اپنی پوری زندگی سڑکوں پر گزار دی۔

ہندوستانی مردم شماری 2011 کے مطابق خوراک، صحت، پانی، صفائی ستھرائی، پناہ گاہ اور ذریعہ معاش سے متعلق امدادی اقدامات تک رسائی میں مدد کے لیے کوئی رقم اور کوئی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہو گئے ہیں۔

بدلتا موسم بے گھر اور پسماندہ افراد کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے اور حکومت کو انہیں زیادہ سے زیادہ امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

صرف عارضی پناہ گاہ فراہم کرنا ایک ناکافی حل ہے۔ حکومت بے گھر افراد کو کنٹرول کرنے اور ان کی مدد کرنے میں ’ناکام‘ ہو چکی ہے کیونکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے لوگ مہنگائی کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں وہ غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے گھر سے محروم ہو کر سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔

یہ شہر تقریباً چار سے 500 سال پرانا ہے اور اس وقت پرانی دہلی سب سے زیادہ آبادی والا مقام بن چکا ہے اور یہاں کی انتظامیہ پوری طرح ’ناکام‘ ہو چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرانی دہلی کے ایک کونسلر محمد صادق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’علاقے میں بہت سے مسائل ہیں جیسے چاندنی چوک کی گلیاں جو غریب لوگ پسند کرتے ہیں، ہم نے ان کے لیے بھی کام کیا ہے، جیسا کہ ہم نے نائٹ شیلٹرز متعارف کرائے ہیں تاکہ لوگ وہاں سو سکیں لیکن یہ علاقہ زیادہ آبادی والا ہے اور یہ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ یہ غریب لوگوں کے لیے کافی ہے اور انہیں بہتر علاج نہیں مل پاتا ہے۔‘

’علاقے میں شیلٹر کے غیر فعال گیٹ میں داخل ہونے والوں کو سڑے ہوئے کمبل، چوہوں کے کوڑے اور لکڑی کے دھوئیں کی بدبو آتی ہے۔‘

ان نائٹ شیلٹرز پر بنیادی طور پر منشیات کے عادی افراد اور شراب نوشی کرنے والوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے خواتین کے لیے ان پناہ گاہوں میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اپنے تین بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے رہنے والی معروفہ بتاتی ہیں کہ ’حکام نے بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کھولی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان جگہوں پر زیادہ تر شرابیوں اور منشیات کے عادی افراد کا قبضہ ہے اور ان لوگوں کو جگہ نہیں دی جاتی جو حقیقی طور پر مدد چاہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا