سیاسی پناہ کی برطانوی اصلاحات تنقید کی زد میں

ناقدین کا خیال ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمود کے یہ اقدامات دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں کو خوش کرنے کے مترادف ہیں۔

مظاہرین 20 ستمبر, 2024 کو برمنگھم میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کے دوران پناہ گزینوں کے حق میں پلے کارڈز پکڑے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

غیر قانونی ترک وطن اور سیاسی پناہ کے طریقہ کار کے لیے کی جانے والی برطانوی اصلاحات تنقید کے نشانے پر ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمود کے یہ اقدامات دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں کو خوش کرنے کے مترادف ہیں۔

قدامت پرست ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہیں اور یورپین کنونشن آف ہیومن رائٹس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

برطانوی سیکریٹری داخلہ نے حال ہی میں غیر قانونی ترک وطن کو روکنے اور سیاسی پناہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بہت سارے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

قدامت پرست پارٹی نے اس کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے جبکہ بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اس کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔

انہوں نے ان اقدامات کا اعلان حال ہی میں برطانوی دارالعوام کے ایک اجلاس کے دوران کیا۔

ان اصلاحات کے مطابق جن لوگوں کو برطانیہ میں سیاسی پناہ دی جائے گی وہ صرف عارضی طور پر مادر جمہوریت میں قیام کر سکیں گے۔

ان کے اس سٹیٹس پر ہر 30 مہینے کے بعد نظر ثانی کیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ جس ملک سے انہوں نے ترک وطن کیا اگر وہ محفوظ ہے تو انہیں واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

حکومت نے برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے دورانیے کو بھی بڑھا دیا ہے۔

اب تارکین وطن کو پانچ سال کی بجائے 20 سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ حکومت نیا ورک اور سٹڈی ویزے کا پروگرام لے کر آئے گی، جس میں تارکین وطن سے کہا جائے گا کہ وہ نوکری تلاش کریں یا تعلیم حاصل کر کے ملازمت کے مواقعے میں اضافہ کریں۔

ایسا کرنے والوں کو مستقل سکونت نسبتا جلدی مل سکتی ہے اور وہ افراد جو اس طریقہ کار کو اختیار کریں گے ان کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ برطانیہ اپنی خاندانوں کو لا سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان اصلاحات کے تحت سیاسی پناہ کے مقدمات میں ایک سے زیادہ درخواستوں کے عمل کو ختم کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو یورپین کنونشن آف ہیومن رائٹس کی کچھ شقوں میں بھی تبدیلی کرنی پڑے گی۔ اصلاحات کے تحت سیاسی پناہ گزینوں کو لازمی دی جانے والی رہائش اور مالی معاونت کے نظام کو ختم کیا جائے گا، جواس وقت حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے۔

اس کے علاوہ محفوظ اور قانونی راستے برطانیہ میں داخل ہونے کے لیے بنائیں جائیں گے۔ پناہ گزینوں کو واپس نہ لینے والے ممالک کے خلاف ویزے کی پابندی یا جرمانے عائد کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ حکومت ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرے گی اور پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ڈیجیٹل آئی ڈی متعاراف کرائی جائے گی۔

جہاں قدامت پرست پارٹی نے ان اقدامات کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے وہی برطانوی مسلمان رکن اسمبلی زارا سلطانہ سمیت بائیں بازو کے کئی رہنماؤں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور تارکین وطن کے لیے کام کرنے والے ادارے بھی اس پر سیخ پا ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے برطانوی معاشرے کے دیرینہ مسائل جیسا کہ رہائش، صحت،  ہسپتالوں پہ رش، انفراسٹرکچر کی خستہ حالی، سکولوں میں سٹاف کی کمی، سڑکوں اور ٹرینوں کے نظام کی بدحالی جیسے مسائل حل نہیں ہوں گے، جو سفید فام مزدروں میں بے چینی اور غصے کے بنیادی اسباب میں سے سب سے اہم ہیں۔

مثال کے طور پر این ایچ ایس میں رش کی ایک بڑی وجہ ملک کے نجی سپتال ہیں، جو اس رش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے این ایچ ایس سے خطیر رقم بٹورتے ہیں۔

ناقدین کے مطابق میڈیکل سٹاف کی تعداد میں اضافہ کرکے اور موجودہ ملازمین کو مزید مراعات دے کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

لیکن حکومت نجی ہسپتالوں کو کاروبار دینے کے لیے اس مسئلے کو ٹھوس انداز میں حل کرنے کی کوشش نہیں کررہی۔ خیال رہے کہ نجی ہسپتالوں کے منافع کا ایک بڑا ذریعہ خود این ایچ ایس ہے، جو رش کی وجہ سے مریضوں کو نجی اسپتال بھیجتا ہے۔

گھروں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی عام آدمی کے لیے درد سر ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت اس حوالے سے منافع خوروں پہ ہاتھ نہیں ڈالتی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ صرف ایک برطانوی کمپنی کے پاس 11 ہزار سے زیادہ کرائے کے گھر ہیں جب کہ ایک برطانوی بینک کے پاس چار ہزار سے زیادہ کرائے کے گھر ہیں، جن کے کرائے مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں زمین کی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ انگلینڈ کی پوری زمین کا 30 فیصد حصہ اشرافیہ کے چند ہزار گھرانوں کے پاس ہے۔

18 فیصد پہ قبضہ کارپوریشنز کا ہے۔ 17 فیصد کی ملکیت بینکوں کے پاس ہے جبکہ عام برطانوی شہری کے پاس انگلینڈ کی زمین کا صرف پانچ فیصد حصہ ہے حکومت کے پاس یہ سات سے آٹھ فیصد ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر