خیبرپختونخوا کا نیا ہیلتھ ایکٹ: غلط فہمیاں، اعتراضات اور حقائق

ہڑتالی ڈاکٹر ہسپتالوں کی نجکاری روکنے سمیت دیگر مطالبات تسلیم نہ ہونے تک احتجاج برقرار رکھنے پر مُصر ہیں جبکہ صوبائی وزیر صحت کہتے ہیں کہ ایکٹ میں ایسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں۔

خیبر پختونخوا میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) ایکٹ کے خلاف ڈاکٹروں کی ہڑتال کو ایک مہینہ ہوچکا ہے، لیکن تاحال حکومت اور ہڑتالی ڈاکٹروں کے درمیان دھرنا ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی اور معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔

ڈاکٹروں کی صوبائی ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر امیر تاج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ اخبار اور چینلز ان کی سربراہی میں اسلام آباد سپیکر ہاؤس میں ہونے والے حکومتی نمائندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو غلط رنگ دینے میں مصروف ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ ان کے مطالبات نہیں مانے گئے، لہذا ڈاکٹرز بھی اپنا احتجاج جاری رکھنے پر بدستور قائم ہیں۔‘

ڈاکٹر امیر تاج نے بتایا: ’25 اکتوبر کو اسلام آباد میں ڈاکٹروں کا دھرنا ہونے جا رہا تھا جسے وزیر دفاع پرویز خٹک، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق رکن صوبائی اسمبلی جی جی جمال اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کے اصرار پر صرف کچھ دنوں کے لیے اس لیے ملتوی کر دیا گیا کیونکہ وہ مذاکرات سے متعلق وزیر اعظم سے مشاورت کے لیے وقت مانگ رہے تھے۔‘

ڈاکٹروں کے مطالبات کیا ہیں؟

ڈاکٹر امیر تاج نے مزید کہا کہ جب تک ڈاکٹروں کے یہ مطالبات نہیں مانے جائیں گے ان کا احتجاج برقرار رہے گا۔

1۔ موجودہ اور مستقبل میں نئے آنے والے ڈاکٹروں کی بطور سول سرونٹ حیثیت برقرار رہے گی۔

2۔ اگر حکومت ریجنل ہیلتھ اتھارٹی (آر ایچ  اے ) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی (ڈی ایچ  اے) لانے پر مُصر ہی ہے تو پھر اس میں ترامیم کی جائیں اور سیاست کا عمل دخل ختم کیا جائے۔

3۔ اس نئے نظام کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرریوں کو ایڈورٹائز کیا جائے، نا کہ حکومتی ارکان ان کا چناؤ کریں۔

4۔ حکومت ہسپتالوں کی نجکاری نہ کرے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پہلے مرحلے میں ہسپتالوں کو قرضے دے اور پھر ان سے وصول کرے۔ اس سے مریضوں کو بھاری فیسوں کا سامنا ہوگا، جو کہ ان کے ساتھ ظلم ہے۔ ایسا نہ کیا جائے۔

5۔ حکومت کی جانب سے احتجاج کے دوران ڈاکٹروں کے ساتھ روا رکھے گئے رویے کی تلافی کی جائے۔ جن ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہیں اور کیسز بنائے گئے ہیں، وہ واپس لیے جائیں۔

صوبائی وزیرِ صحت کیا کہتے ہیں؟

اندپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹروں کے مطالبات اور ہیلتھ ایکٹ سے متعلق صوبائی وزیرِ صحت حشام انعام اللہ خان کا موقف جاننے کی کوشش کی اور ان سے کچھ سوالات کیے۔

انڈپینڈنٹ اردو: ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کی نجکاری ہو رہی ہے اور وہ اس لیے اس کے خلاف ہیں؟

وزیر صحت:  نجکاری تو اس کو کہتے ہیں جب ایک ادارے کو مکمل طور پر کسی نجی کمپنی کو فروخت کیا جا سکے اور  آگے وہ اس پر پیسہ کمائیں، لیکن  ہم ایسا نہیں کر رہے۔ ہم ہیلتھ سیکٹر کو ری آرگنائز کر رہے ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کی جا رہی ہے، تاکہ عوام تک  زیادہ بہتر طور پر سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو: اس نئے ہیلتھ ایکٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی اور عوام کو اس سے کیا فائدہ پہنچے گا؟

وزیر صحت: اس ایکٹ کے ذریعے مقامی عہدیداروں کو ون لائن بجٹ ملے گا۔ وہی پیسہ جو آج ہم دے رہے ہیں، وہ پیسہ ان کے پاس جائے گا اور وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ ان کو اتھارٹی دی جائے گی کہ وہ خود کو مقامی سطح پر مضبوط کریں، اپنی سروسز بہتر بنائیں، اپنی دوائیں خریدیں، خود ڈاکٹروں کی بھرتیاں کریں، جدید سازوسامان خریدیں اور اپنے اضلاع میں نئی سہولیات لے کر آئیں۔ اس پورے نظام سے مریض اور ڈاکٹر حضرات دونوں کو فائدہ پہنچےگا۔ اس کے علاوہ ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز بنانے سے حکومت ہر ڈاکٹر، مریض اور ہسپتالوں کے حالات سے فوری طور پر آگاہ ہو سکے گی، کیونکہ ہر ریجن کا آر ایچ اے اپنے آپ میں ایک خودمختار ادارہ ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو: ڈاکٹرز یہ بھی کہتے آرہے ہیں کہ حکومت قرضہ دینے اور صرف پہلے مرحلے میں فنڈنگ کی بات کیوں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہسپتالوں سے خودکفالت کی توقع رکھ رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس کا سارا ملبہ مریضوں پر پڑے گا، کیونکہ پیسہ لانے کے لیے اور قرضے لوٹانے کے لیے یہی ایک راستہ ہوگا کہ فیسیں بڑھا دی جائیں۔ کیا ایسا کچھ ہونے جارہا ہے؟

وزیر صحت: بدقسمتی یہ ہے کہ چند صفحات کے ایکٹ کو پڑھا نہیں جا رہا ہے۔ ایکٹ میں ایسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں، بہرحال اس سے اچھی کیا بات ہوگی کہ کوئی بھی ادارہ خودکفیل ہو۔ لیکن یہاں تو ایسا کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ حکومت ان کو اب بھی پیسہ دے گی اور بعد میں بھی دے گی۔ مریضوں کے لیے فیسیں نہیں بڑھائی جائیں گی اور حکومت کی سپورٹ ختم نہیں ہوگی۔ قرضہ دینے سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک آر ایچ  اے کو ان کا سالانہ بجٹ دینے کے بعد سال کے کسی مرحلے میں مزید رقم کی ضرورت پڑے تو وہ حکومت سے گرانٹ لے سکتے ہیں، جس کو دوسرے سال حکومت معاف بھی کرسکتی ہے یا پھر ان کے بجٹ سے بھی کاٹ سکتی ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو: تو کیا یہ ادارے خود کسی ملکی یا غیر ملکی کمپنی یا شخص سے قرضہ نہیں لے سکیں گے؟

وزیر صحت: نہیں۔ پیسے حکومتِ پاکستان ہی فراہم کرے گی، کیونکہ یہ کوئی نجی ادارہ نہیں بلکہ حکومت کا ادارہ ہے۔ ہم ان کو مکمل اختیار نہیں دے رہے ہیں بلکہ اختیارات کو تقسیم کیا جا رہا ہے، جن کا استعمال وہ قوانین کے مطابق کریں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو: نئے ہیلتھ ایکٹ کے تحت ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز بنانے کے لیے پالیسی بورڈ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کی تقرریوں میں سیاسی عمل دخل زیادہ ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ وزیرِ صحت اور سیکرٹری ہیلتھ ان کا چناؤ کریں گے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

وزیر صحت: حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نئے نظام میں سیاسی مداخلت پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ میرا کردار صرف اتنا ہی ہے کہ ہم ٓان کو ایک ڈائریکشن دیں گے کہ کیسے وہ اپنی مدت میں مختلف سہولیات کو بہتر بنائیں گے۔ باقی فیصلے ان کے ہوں گے، پیسے وہ خرچ کریں گے۔ وہ مجھے جواب دہ ہوں گے اور میں حکومت کو جواب دہ ہوں گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت