جب ایک سوال پر مولانا کی تسبیح رک گئی

جمعیت علمائے اسلام ف کا دھرنا نما جلسہ جمعرات کی شب اسلام آباد پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مارچ دھرنے میں تبدیل ہو گیا تاہم جمعیت انتظامیہ اس کو دھرنا کہنے سے انکاری ہے۔

سوالوں کے جواب دیتے وقت وہ مسلسل تسبیح پھیرتے رہے (اے ایف پی)

جمعیت علمائے اسلام ف کا دھرنا نما جلسہ جمعرات کی شب اسلام آباد پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مارچ دھرنے میں تبدیل ہو گیا تاہم جمعیت انتظامیہ اس کو دھرنا کہنے سے انکاری ہے۔

جب مارچ کا آغاز کراچی سے ہوا تو خواتین شرکا نہ ہونے کی وجہ سے خواتین رپورٹروں کو کوریج کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اسلام آباد میں دو خواتین رپورٹروں کو کوریج کی اجازت سے انکار کے بعد جب یہ معاملہ میڈیا پر اٹھایا گیا تو اس کے بعد خواتین کو اجازت بھی مل گئی اور ماحول بھی تبدیل ہو گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کا وقت طے ہوا تو میں اپنے کیمرا مین کے ہمراہ وہاں پہنچی۔ میرے علاوہ وہاں مختلف میڈیا ہاؤسز کی صحافی خواتین موجود تھیں۔ جمعیت کے رضاکاروں نے احترام کے ساتھ میڈیا کے لیے مختص جگہ تک جانے کا راستہ فراہم کیا۔ ان کا نظم و ضبط قابل تعریف تھا۔ وہاں موجود ایک رضاکار نے بتایا کہ اُن کی فورس انصار السلام آرمی کی طرح کام کرتی ہے اور اسی طرح ان کے رینکس ہیں جیسے سپاہی سے لے کر جنرل تک۔ اُس نے بتایا کہ جنرل رینکس کی ڈیوٹی مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ہوتی ہے اور کرنل میجر رینکس یہاں سپاہیوں کو مانیٹر کر رہے ہیں اور اُن کی تعداد یہاں 15 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

آزادی مارچ میں اونچی آواز میں بلوچی اور پشتو زبان میں نغمے بج رہے تھے۔ چونکہ زیادہ تر شرکا کا تعلق بلوچستان سے ہے اس لیے بلوچی زبان میں حکومت مخالف نغمے لگے ہوئے تھے جس میں صرف لفظ عمران خان ہی سمجھ آ رہا تھا۔

مولانا شوریٰ کے اجلاس میں مصروف تھے اور منتظمین کے مطابق چونکہ اسی میں فیصلہ ہونا تھا کہ آگے جانا ہے یا نہیں،  اس لیے شوریٰ کا اجلاس طویل ہو گا، اور پھر یہی ہوا، مولانا فضل الرحمٰن شام کے بعد پہنچے۔ لیکن اس سے پہلے آزادی مارچ کے منتظمین نے بہت احترام سے ہمیں مولانا کے کنٹینر تک رسائی دے دی تاکہ ہم وہاں بیٹھ کر انتظار کر سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کنٹینر کے اندر کا ماحول بالکل ایک کمرے جیسا تھا۔ داخل ہوتے ہی سامنے ہال نما منظر تھا جہاں کرسیاں بھی لگی ہوئی تھیں اور ایک فریزر بھی رکھا ہوا تھا۔ دائیں جانب کونے میں ایک اور دروازہ تھا، کنٹینر کے اُس حصے کو ایک چھوٹے کمرے میں تبدیل کیا گیا تھا جہاں ایک صوفہ اور دو تین کرسیاں رکھیں تھیں وہ مولانا فضل الرحمٰن کی چھوٹی سے بیٹھک تھی۔ جبکہ کنٹینر کے بائیں جانب ایک کونے میں باتھ روم بنایا گیا تھا اور دوسرے کونے سے کنٹینر کی چھت پر جانے کا راستہ تھا جہاں سے مولانا فضل الرحمٰن اور قیادت تقاریر کر رہے تھے۔ کنٹنیر کا درمیانی حصہ لاؤنج کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن جب پہنچے تو کنٹینر کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ کچھ میڈیا کے لوگوں سے اور باقی مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھی اور کچھ اپوزیشن کے لوگ جس میں محمود اچکزئی بھی شامل تھے۔ مہلت ختم ہونے والی تھی، اس لیے سب کو یہی بے چینی تھی کہ مولانا کیا اعلان کرنے والے ہیں لیکن مولانا کی باڈی لینگوج کافی سنجیدہ تھی جیسے کسی سوچ میں گُم ہوں۔

میں نے مولانا کے ساتھ موجود اُن کے ایک ساتھی سے پوچھا تو اُس نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ’ڈی چوک جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ وہاں اتنا مجمع لے کر جانا حکومت کے لیے تو خطرہ ہے ہی لیکن جمعیت کے لیے بھی خطرہ ہے کہ اس مجمعے کو کنٹرول کیسے کریں گے، اس لیے مولانا یہ رسک ہر گز نہیں لیں گے۔‘ جب اُن سے پوچھا کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ مولانا سے رابطے میں ہیں حکومت کو مزید 24 یا 48 گھنٹوں کا وقت دے کر اس دوران درمیانہ راستہ تلاش کریں گے۔

اسی دوران جمعیت کے منتظم طارق نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ایک نجی ٹیلی ویژن کی اینکر عائشہ کو تو نہیں دیکھا؟ میں نے کہا: ’نہیں کیونکہ ہم تو اِدھر کنٹینر کے اندر موجود ہیں باہر کا کچھ اندازہ نہیں کہ کون کدھر ہے؟‘

انہوں نے جواباً کہا کہ ’اب تو ہم ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خاتون اگر دھرنے پر آئی ہے تو اُس کو پروٹوکول دیں اور اُسے کوئی بھی مسئلہ نہ ہو۔‘

بہت مشکل سے چند منٹ مولانا فضل الرحمن سے انٹرویو کے لیے ملے۔ چونکہ ملاقاتیوں کی لمبی لائن تھی اور وہاں بھیڑ بہت تھی۔ جگہ کی بھی تنگی تھی اس لیے سات گھنٹے انتظار کے بعد مولانا سے چند سوالات کیے اور واپسی کی راہ لی۔ 

انٹرویو کے دوران ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی اور وہ ہر سوال کا بہت ٹھہر ٹھہر کر جواب دے رہے تھے۔ ہم سے بات کرتے وقت ان کا لہجہ اُس مولانا فضل الرحمٰن سے بالکل مختلف تھا جو وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر حکمرانوں کو للکارتے وقت اپناتے ہیں۔

سوالوں کے جواب دیتے وقت وہ مسلسل تسبیح پھیرتے رہے۔ البتہ جب ہم نے آرمی چیف کے استعفے کا سوال کیا تو ان کی انگلیاں تسبیح پر ایک لمحے کو رک گئیں۔ پھر انہوں نے سوچ کر جواب دیا اور تھوڑی دیر بعد انگلیاں بھی رواں ہو گئیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست