اپنے بچوں کو جنسی تشدد سے کیسے بچائیں؟

اگر کسی بچے کے کسی بڑے کے ساتھ خفیہ مراسم ہو جاتے ہیں تو وہ کبھی بھی زندگی میں بہتر تعلقات نہیں بنا پاتا اور اس طرح کے بچے، ان چیزوں کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ ان سے نکلنے کی کوشش ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

بچوں کے تیزی سے بدلتے رویئے، غصہ، چھوٹوں پر تشدد، بد تمیزی یا پھر ایک دم لوگوں سے چھپنا، الجھن کا شکار نظر آنا، گھبرانا اور ہکلانا ایسی علامات ہیں جن پر والدین اور گھر والوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ کسی خوف کا شکار تو نہیں۔ ان کی نفسیات پر بھی بات کی جائے۔(پکسابے)

چونیاں کے حالیہ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات ہوں یا زینب کیس، والدین اور اساتذہ فکرمند ہیں کہ بچوں کو کیسے اور کس حد تک جنسی تعلیم دی جائے۔ ہمارے ہاں جنسی موضوعات پر بات کرنا ممنوع ہے، اور اسے ’بیہودگی اور باعث شرمندگی‘ سمجھا جاتا ہے جو درست نہیں۔

والدین کی نادانی اور بچوں کی اس کم علمی کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جو معصوم بچوں کے ذہنوں کو ہی مسخ نہیں کرتے بلکہ انہیں مسخ شدہ لاش میں بھی تبدیل کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سمجھیں کہ اس موضوع پر بات کرنا بے حیائی اور بےراہ روی نہ سمجھی جائے، بلکہ آپ کی دی ہوئی آگاہی اور مناسب گفتگو ہی آپ کے بچے کو محفوظ بچپن فراہم کر سکے گی۔

جنسی آگاہی کا آغاز اپنے گھر سے کریں۔ ایک چھوٹی اور حقیقی کہانی سنیں۔

صائمہ [فرضی نام] اپنے بچپن میں پہلے پڑوسی، پھر رشتے دار اور پھر ایک ادھیڑ عمر صاحب کے ہاتھوں جنسی تشدد اوراستحصال کا شکار ہوئی۔ آخری بار جب یہ حادثہ ہوا تو اس کی عمر بارہ سال تھی۔ اور اس نے ڈرتے ڈرتے یہ سب اپنی والدہ کو بتایا، والدہ نے نہ صرف کی اس بات توجہ سے سنی بلکہ باقی بچوں کو بلا کر ایک ہی بات کی کہ اگر ایسا کبھی ہو جائے تو ڈرنا یا گھبرانا نہیں ہے بلکہ شور مچانا ہے اور بڑوں یا کسی بھی گھر والے کو سب سے پہلے یہ سب بتانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتی ہے کہ پہلی بار اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا۔ دوسری بار وہ ڈر گئی تھی لیکن جب کچھ عرصے بعد پھر یہ سب ہوا تو اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی والدہ کو بتایا۔ ماں کی باتوں سے اسے ڈھارس ملی۔ اب وہ بے خوف ہے مگر کئی سالوں تک وہ خوف اور دباؤ کا شکار رہی۔

صائمہ کی والدہ بتاتی ہیں کہ میں نے اس کا خوف کم کرنے کے لیے اس سے کہا کہ وہ صرف اپنے تحفظ پر توجہ نہیں دے بلکہ جہاں کہیں اسے لگے کہ اسے آگہی دینے کی ضرورت ہے تو ضرور دے۔ اس کے بعد سے ہی اس نے قریبی رشتے داروں اور محلے کے نو عمر بچے بچیوں کو بتانا شروع کیا کہ کیا، کیا برا ہے اور کوئی بھی شخص ان کے ساتھ کس حد تک قریب بیٹھ سکتا ہے۔ کہاں پیار کر سکتا ہے اور کہاں نہیں۔ اور اگر کسی سے خطرہ لگے تو صاف کہہ دے وہ شور مچا دے گی۔ اور شور مچا دے۔

نو عمر لڑکے لڑکیوں کو بھی آگاہی چاہیے۔

ا ب یہ چھوٹے بچوں کا ہی مسئلہ نہیں رہا بلکہ نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کو بہتر تعلیم اور درست معلومات فراہم کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ انسانی جبلت کو معاشرتی اقدار کے ساتھ جوڑا کر بہتر انداز میں آگاہی دی جا سکتی ہے۔ والدین کے ساتھ گھر کے بڑے بہن بھائی کا بھی کام ہے کہ گھر کے بچوں کا آگاہی دیں۔ والدین یا گھر والوں کی دی ہوئی آگاہی سے بچوں میں اعتماد بڑھے گا، اور وہ اس ظلم کا آسان شکار نہیں بن سکیں گے۔

مسئلہ وہیں آتا ہے کہ ہم اس مسئلہ پر بات نہیں کرتے اور ہم جانتے ہیں کہ چھوٹے اور نو عمر بچے بچیوں کو ان کا کوئی دوست یا قریبی عزیز باآسانی اپنا شکار بنا سکتا ہے۔ اور وہ ان کے کچے ذہنوں کو غلط راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے انتظار نہیں بلکہ بر وقت بات کرنا ضروری ہے۔

جنسی تعلیم دینے کی بات ’آہنگ‘ کی آمنہ لطیف بھی کرتی ہیں۔ آہنگ جسمانی اور تولیدی صحت سے متعلق تعلیم اور آگہی فراہم کر نے والا ادارہ ہے۔ آمنہ کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو محفوظ بچپن دیں۔ خاص کر والدین بچوں کے منفی رویوں پر نظر رکھیں اور جانیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ بچوں کی عادت ڈالیں کہ وہ گھر اور گھر سے باہر کی روداد ان کو آ کر سنائیں اور والدین بھی ان کے کہے الفاظ پر یقین کریں اور توجہ دیں۔

آمنہ نے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو زبردستی کسی بھی رشتے دار یا قریبی عزیز سے پیار نہ کروائیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 70 فیصد بچے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے ہاتھوں اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں جبکہ صرف 30 فیصد بچوں کو کوئی اجنبی اپنے جنسی تسکین کا نشانہ بناتے ہیں۔ بچوں کو سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ان کے جسمانی اعضا کوئی شرمندگی کی بات نہیں۔ ان سے ان کی عمر کے مطابق اس موضوع بات کریں، انہیں اعتماد دیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے گروپ چلانے والی بشریٰ اقبال سمجھتی ہیں کہ اب صرف آگاہی دینے کا وقت گزر چکا ہے کیونکہ یہ واقعات صرف ایک بچے کا مسئلہ نہیں رہے بلکہ ان واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بہت سے بڑے بھی جنسی تعلیم کے حوالے سے درست انداز میں آگاہ نہیں ہیں، کیونکہ انہیں کوئی فارمل تعلیم حاصل نہیں کی، ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہاں ہماری یہ کمی ہے اور ہمیں اس کو دور کرنا ہے۔

ہمارے ہاں ابھی بھی مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت ننھیال اور ددھیال کی مشترکہ ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا سب کو مل کر یہ ذمہ دادی اٹھانی ہوگی۔ ساتھ سکول میں اساتذہ والدین کی موجودگی میں طلبہ و طالبات سے بات کر سکتے ہیں۔

بشریٰ سمجھتی ہیں کہ عوامی جگہیں بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ اب پارک، لائبریری اور اس ہی طرح کے عوامی مقامات کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے جہاں لوگ مل بیٹھیں۔ کوئی چھپ کر کام نہ کریں۔ جب لوگ چھپ پر بیٹھیں گے تو اس قسم کے واقعات ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

اگر کسی بچے کے کسی بڑے کے ساتھ خفیہ مراسم ہو جاتے ہیں تو وہ کبھی بھی زندگی میں بہتر تعلقات نہیں بنا پاتا اور اس طرح کے بچے، ان چیزوں کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ ان سے نکلنے کی کوشش ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ چونیاں میں بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے سہیل شہزادہ کے ساتھ بھی یہی دیکھنے میں آیا کہ وہ خود جنسی زیادتی کا شکار رہا اور جب پکڑا گیا تو وہ نہ شرمندہ تھا اور نہ ہی چہرے پر کوئی ملال۔

بچوں کے بارے میں غیر سرکاری ادارے ساحل کی تازہ ترین رپورٹ لرزہ خیز ہے۔

ساحل کی پہلی چھ ماہی رپورٹ: 2019

1304    جنسی ہراسانی کے رجسٹرڈ کیسز

35        جنسی تشدد کے بعد قتل ہونے والے بچوں کی تعداد

90        اسلام آباد

50        پنجاب

51        کے پی کے

32        بلوچستان

6          گلگت بلتستان

70        سندھ

16        آزاد کشمیر

8-15     متاثرہ ترین عمر

روزانہ 7 بچے      جنسی تشدد کی اوسط روزانہ تعداد

’ساحل‘ کے ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں سب سے زیادہ جنسی تشدد کے مقدمات اسلام آباد میں درج ہوئے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے علاقوں میں کم واقعات ہوتے ہیں۔ اصل میں چونکہ یہاں لوگ تعلیم یافتہ ہیں اس لیے وہ ایسے کیس زیادہ رپورٹ کرتے ہیں، انہیں چھپاتے نہیں۔ ساتھ میڈیا بھی ان موضوعات پر آواز اٹھاتا ہے۔ ورنہ کتنے ہی کیس تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔‘

 ممتاز سمجھتے ہیں کہ ہمیں ' مستحکم اور یکساں پالیسی کی ضرورت ہے۔ جیسے' زینب 'کے واقع کے بعد پنجاب حکومت نے سکول کے طلبہ و طالبات کے لیے ’جنسی تشدد اور بچاؤ‘ پر ایک چھوٹا سا کتابچہ چھپوایا۔ جو چند اسکولوں تک ہی پہنچ سکا کہ نئی حکومت آ گئی نے اور اب وہ ڈبے میں بند پڑے ہیں۔ اس کو پھر سے اسکولوں تک پہنچانا ہوگا۔

جنسی تشدد کا مقدمہ درج کراتے ہوئے کیا کیا نکات اہم ہیں؟

اے ایس پی سوہائے عزیز سپرنٹینڈنٹ آف پولیس ہیں۔ اور انہیں سندھ یونیورسٹی کے استاد کے خلاف طالبات کے جنسی ہراسانی کی شکایت پر انکوائری آفسر نامزد کیا گیا۔ سوہائے کی رائے میں جنسی تشدد اور ہراسانی کے مقدمات کے حوالے سے والدین کو سب سے پہلے پولیس رجوع کرنا چاہیے تاکہ ایف آئی آر درج ہو سکے۔ والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنسی ہراسانی اور تشدد قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ اور یہ مقدمات 156 کی دفعہ کے تحت آتے ہیں۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر پڑھے ایف آئی ار پر دستخط نہ کریں۔ کسی پر شک ہے تو ملزم کی ممکنہ ظاہری شخصیت اور حلیہ ، حادثہ کا وقت واضح انداز میں ایف آئی آر کا حصہ ہونا چاہیے۔ والدین کوشش کریں کہ حادثہ کی جگہ سے ملنے والا کوئی خاص ثبوت ضائع نہ ہو۔

والدین، ساحل، آہنگ اور محفوظ بچپن کی مرتب کر دہ اقدامات اور سفارشات

1- اس مہم میں والدین اور اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ والدین گھر کا ماحول ایسا رکھیں کہ بچے کھل کر اپنے مسائل بتا سکیں۔ والدین بچوں سے بات کریں، ہچکچائیں نہیں۔

2-بچوں کے تیزی سے بدلتے رویئے، غصہ، چھوٹوں پر تشدد، بد تمیزی یا پھر ایک دم لوگوں سے چھپنا، الجھن کا شکار نظر آنا، گھبرانا اور ہکلانا ایسی علامات ہیں جن پر والدین اور گھر والوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ کسی خوف کا شکار تو نہیں۔ ان کی نفسیات پر بھی بات کی جائے۔

3-اساتذہ اپنے طلبہ و طالبات پر نظر رکھیں۔ ایک دم خراب نمبر آنا۔ کلاس میں متوجہ نہ ہونا۔ ہم جماعتوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا، برے رویوں کا اظہار کرنا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

4-والدین اپنے بچوں کو 'نہیں' کہنا سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ کوئی اپنا یا اجنبی ان کے کس حد تک نزدیک آ سکتا ہے۔ اور ان کے جسمانی اعضا والدین یا ڈاکٹر کے علاوہ کوئی نہیں چھو سکتا۔

5- ہمارے ہاں وقتی کام ہوتے ہیں پالیسیاں بنتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے نصاب کو بہتر کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ تمام ٹیکسٹ بک بورڈ کو جنسی تشدد پر یکساں مگر مقامی زبان میں کتابچے مرتب کریں۔

6- انٹرنیٹ پر بہت سے چور دروازے کھل چکے ہیں۔ کچھ ذہنی بیمار آج بھی چائلڈ پورنوگرافی نہ صرف خود دیکھتے ہیں بلکہ آگے بھی بھیجتے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں سے سختی سے کرنا چاہیے۔

7۔ہمارے بچوں نے خون خرابہ دیکھا ہے۔ آج کی نسل کسی پر بھروسہ کرنے پر تیار نہیں۔ اوروہ الجھنوں اور اعتماد کی کمی کا شکار ہے۔ ان ہی پہلوں کا نتیجہ ہے کہ کچھ غصے کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ بچے اس طرح کی نفسیاتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ پھر کسی مظلوم یا کمزور کے ساتھ اپنی فرسٹریشن نکالتے ہیں لہٰذا امن اور معاشی استحکام سب سے زیادہ ضروری ہے۔

8- اگر کسی کے ساتھ یہ سانحہ ہو جائے تو چپ نہ رہیں بلکہ جلد سے جلد پولیس میں رپورٹ کرائیں چپ نہ رہیں۔ تاکہ شواہد محفوظ کیے جا سکیں۔ اس طرح کے جرائم میں شواہد ہی کی بنیاد پر ملزم، مجرم بن سکتا ہے۔ جتنے مضبوط شواہد اتنی جلدی مجرم پکڑا جائے گا۔

9- ہمیں پولیس اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عام آدمی کو ایف آئی آر کے اندراج سے آگاہ کرنا ہو گا۔ بروقت انصاف اور مجرم کی سخت پکڑ ہی ان جرائم کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔

10-ہر مثبت قدم اور آواز کی اہمیت ہے۔ اس لیے آواز اٹھائیں۔ اور یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری انفرادی ذمہ داری بھی ہے۔ ہراسانی اور جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے ہر ایک شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

آئیں اپنے بچوں کو تعلیم دیں اور ان سے بات کریں کیونکہ تحفظ آگاہی سے جڑا ہوا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین