روئی کی گڑیا سے ماحول بچانے کے لیے کوشاں آٹھ سالہ ایمان

کراچی کی رہائشی ایمان نے’ایمانس ٹالک‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے، جہاں وہ بڑوں اور بچوں کو پلاسٹک کے ماحول پر خطرناک اثرات کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔

کراچی کی رہائشی، چوتھی جماعت کی طالبہ ایمان دانش خان موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن ہیں، جو دنیا میں پلاسٹک سے بنے کھلونوں کو روئی اور کپڑے کے کھلونوں سے تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں آٹھ سالہ ایمان نے بتایا کہ 1950 سے اب تک دنیا میں 83 ارب ٹن پلاسٹک بنایا گیا ہے، جس کا 91 فیصد اب دوبارہ استعمال کے قابل بھی نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک ماحول میں تحلیل نہیں ہوتا اور اسے گلنے کے لیے پانچ ہزار سال کا عرصہ لگتے ہیں۔ ایمان نے کہا: ’اس کرہ ارض پر پلا سٹک کے باعث سمندری آلودگی ہوتی ہے اور سمندر میں پلاسٹک پھینکنے کے باعث نہ صرف سمندری حیات کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ پلاسٹک سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے اور آکسیجن کے اخراج کے عمل کو بھی متاثر کر رہا ہے، جس کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں تیزی آگئی ہے۔ میرا یقین ہے کہ پلاسٹک موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔‘

ان کے مطابق پلاسٹک کی اشیا بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے استعمال کے لیے زیادہ ہیں جیسا کہ بچوں کے لیے کھلونے، سکول یا گھر میں بیٹھنے کی کرسیاں یا پھر جیومیٹری باکس اور اسی طرح کی دیگر اشیا، جو سب کی سب پلاسٹک سے بنی ہوتی ہیں۔

ایمان نے کہا: ’میں جب بھی کھلونوں کی دکان پر جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ کھلونا بندوق، گڑیا، گاڑیاں، سب کے سب پلاسٹک کی بنی ہوتی ہیں۔ کیا یہ کپڑے، دھات یا پلاسٹک کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں بن سکتیں؟‘

انہوں نے بتایا کہ انہیں گڑیوں سے کھیلنے کا شوق ہے مگر ان کو جو پہلی گڑیا ملی وہ پلاسٹک کی تھی، جسے انہوں نے شلوار قمیص اور دوپٹہ پہنا کر پاکستانی گڑیا بنا دیا، مگر بعد میں انہیں محسوس ہوا کہ وہ تو پلاسٹک کی گڑیا ہے اور انہوں نے اپنی کلاس میں پڑھا تھا کہ پلاسٹک ماحول کے لیے بہت خطرناک ہے تو انہوں نے سوچا کہ اگر ایک چیز ماحول کے لیے خطرناک ہے تو ان کے لیے کتنی خطرناک ہوگی۔

ایمان نے بتایا: ’شروع میں تو میں نے سوچا کہ پرانی گڑیائیں لے کر مرمت کرکے پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کیا جائے مگر پھر مجھے لگا کہ اگر میں پرانی گڑیا لوں گی بھی تو وہ بھی تو پلاسٹک کی ہی ہوگی، تو میں نے روئی اور کپڑے کے گڑیا بنائی اور اس کا نام ’فضا‘ رکھا۔ فضا کی عمر نو سال ہے اور وہ میری تصوراتی کلائیمٹ ہیرو ہے، جو کرہ ارض کو پلاسٹک سے پاک کرنے کا کام کرتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایمان نے اپنی ننھی دوستوں کے ساتھ ایک رضاکار گروپ بھی تشکیل دیا ہے، جس کا نام ’ایمانس ٹالک‘ یعنی ’ایمان کی باتیں‘ ہے۔ اس پلیٹ فارم سے وہ اور ان کی سہیلیاں بڑوں اور بچوں کو پلاسٹک کے ماحول پر خطرناک اثرات کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔

ایمان کی والدہ زنیرہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایمان کا خیال ہے کہ سکول کے بچوں میں موسمیاتی تبدیلوں کے متعلق آگاہی کے لیے کچھ کہانیاں لکھی جائیں اور ایمان سمیت دوسرے بچے بھی اس پر مضامین لکھیں۔

انہوں نے بتایا: ’اس مقصد کے لیے کراچی سکول گائیڈ کے نام سے ایک مقابلہ رکھا گیا ہے جس کے لیے پاکستان بھر سے ایک سو سے زائد بچوں نے مضامین بھیجے ہیں، جس میں بچوں نے اپنے کلائیمٹ ہیروز کے متعلق لکھا ہے جو اصل میں سپر پاور رکھتے ہیں اور وہ ہیرو کرہ ارض کو بچانے میں ایمان کی گڑیا فضا کی مدد کریں گے۔‘

زنیرہ کے مطابق ان مضامین میں سے 30 کو منتخب کرکے ایک کتاب کی شکل دی جائے گی، جس کا افتتاح فروری 2020 میں ہوگ۔ تاہم حتمی مضامین کا اعلان 16 نومبر کو لنکن کارنر، کراچی میں ایک تقریب کے دوران کیا جائے گا۔

اس تقریب کے لیے ایمان آج کل دعوت نامے تقسیم کر رہی ہیں۔ وہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر یعنی ڈبلیو ڈبلیو ایف کراچی بھی گئیں اور تنظیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بابر سے ملاقات کرکے انہیں تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ ماحول پر کام کرنے والے دیگر اداروں کو بھی دعوت نامے دیے جارہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل