’میرے بھائی کو پاکستانی اداروں نے دبئی سے لاپتہ کر دیا‘

سندھ سے لاپتہ 50 افراد کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی کراچی میں 24 گھنٹوں کی بھوک ہڑتال۔

دبئی سے لاپتہ ہونے والے 23 سالہ راشد حسین بلوچ (تصویر بشکریہ  فریدہ بلوچ)

دبئی کی ایک کمپنی میں کام کے دوران پرُاسرار طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچستان کے علاقے حب کے رہائشی اور انسانی حقوق کے کارکن 23 سالہ راشد حسین بلوچ کی بہن فریدہ بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بھائی کو پاکستانی اداروں نے دبئی سے غائب کردیا اور ان کا تاحال کوئی سُراغ نہ مل رہا۔

انھوں نے اتوار کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ راشدایک نجی کمپنی میں کام کرنے کے لیے 2017 میں دبئی گئے، جہاں دسمبر 2018 میں پاکستانی ادارے انھیں مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے۔

'بھائی کی گمشدگی کی خبر کے ساتھ جب ان کا فوٹو اخبار میں دیکھا تو والد کی حالت غیر ہوگئی، وہ تب سے بیمار ہیں اور والدہ کو بھی دل کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ پورا خاندان خوف زدہ ہے۔ ‘

فریدہ نے کہا اگر ان کے بھائی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ ’میں حکام سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے بھائی کو بازیاب کرایا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریدہ صوبہ سندھ کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم ’وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ‘ کی کراچی پریس کلب کے سامنے 24 گھنٹوں کے لیے کی گئی بھوک ہڑتال میں شامل تھیں۔

ہفتے کی شام پانچ بجے سے اتوار کی شام تک لگنے والے احتجاجی کیمپ میں نہ صرف گمشدہ افراد کے خاندانوں کے مرد بلکہ خواتین اور چھوٹے بچے بھی شریک ہوئے۔

احتجاج میں سندھی قوم پرست جماعت جیے سندھ تحریک کے رہنما اور ارشاد رانجھانی قتل کیس کے اہم گواہ اور لاپتہ مسعود شاہ کے ورثا بھی شامل ہیں۔

فروری 2019 میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا گیا کہ کراچی میں ایک سندھی قوم پرست جماعت کے علاقائی سربراہ ارشاد رانجھانی کو ایک مقامی یونین کونسل کے سربراہ نے گولی مار دی اور خون میں لت پت تڑپتے نوجوان کو ہسپتال بھی نہیں لے جانے دیا۔

’وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ‘ کی رہنما سسئی لوہار کے مطابق مسعود شاہ اس واقعے کے عینی گواہ تھے اور 20 ستمبر 2019 کو جب مسعود کو عدالت میں گواہی دینے جانا تھا، تو مبینہ طور پر اُسی دن سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکار آئے اور انھیں زبردستی ساتھ لے گئے۔

اس کے علاوہ کیمپ میں گمشدہ افراد بشمول سندھ یونیورسٹی جامشورو کے گولڈ میڈلسٹ طالب علم کاشف ٹگڑ،ایوب کاندھڑو، اعجاز گھاہو، سہیل رضا بھٹی، ڈاکٹر فتح، شبیر کلہوڑو،انصاف دایو، زاہد جونیجو، مرتضیٰ جونیجو، حمید کھوسو، گل شیر ٹگڑ، محمد علی وکھیو، موہت میگھوا، فضیلہ سرکی، جیے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ کے رہنما پٹھان زہرانی اور ان کے ساتھ گمشدہ ہونے والے شوکت مرکھنڈ کے خاندان کے افراد بھوک ہڑتال میں شریک ہوئے۔

سسئی لوہار کے مطابق اس وقت سندھ کے 50 سے زائد افراد لاپتہ ہیں جن کو احتجاج کے باوجود بازیاب نہیں کیا جا رہا۔ ’احتجاج کے بعد اگر کچھ گمشدہ افراد کو چھوڑا جاتا ہے تو اتنے ہی اور افراد کو اٹھالیا جاتا ہے۔ کچھ ریاستی ادارے ان افراد کو زبردستی اٹھاکر لے جاتے ہیں، ہم کہتے ہیں اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انھیں گرفتار کرکے عدالت میں کیس چلا کر سزا دی جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انھیں اٹھا کر ماورائے عدالت کسی نامعلوم جگہ پر رکھا جائے؟ کچھ افراد کئی سالوں سے غائب ہیں اور ان کے خاندان والوں کو کوئی نہیں بتا رہا کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ کے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔‘

سندھ کے شہر نصیر آباد کی رہائشی سسئی کے والد اور ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر ہدایت اللہ لوہار کو 2017 میں اغوا کیا گیا مگر وہ بعد میں واپس آ گئے تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے لاپتہ افراد کومنظرعام پر لانے کے لیے قائم کمیشن کی اپریل 2019 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق 31 مارچ 2019 تک پاکستان بھر میں 5915 گمشدگی کے کیس رجسٹر ہوئے ، جن میں سے کمیشن نے3734 کیس حل کروائے جبکہ اِس وقت 2181 کیس حل طلب ہیں۔

انسانی حقوق پاکستان کے وائس چیئرمین اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ اب تو پاکستان کے ادارے گمشدہ افراد کے متعلق آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی دھمکانے لگے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا بلوچستان میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم ان کے دوستوں نے بتایا کہ صرف بلوچستان میں پانچ سے چھ ہزار افراد گمشدہ ہیں، مگر ان کے مطابق بلوچستان میں دوسے ڈھائی ہزار جبکہ سندھ میں تقریباً ڈھائی سو افراد لاپتہ ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق ویرجی کولھی نے کہا کوئی بھی ادارہ کسی بھی فرد کواس طرح غائب کردے تو یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

’اگر کسی فرد نے ریاست کے خلاف یا کوئی اور جرم کیا ہے تو قانون موجود ہے، اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے۔ ہم کسی مجرم کی حمایت نہیں کرتے مگر کسی بھی فرد کو ماورائے قانون اور ماورائے عدالت اس طرح لے جانا قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے، اس سے عوام میں اداروں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان