سعودی عرب یورپی یونین کی ’گندی رقم‘ کی سیاہ فہرست میں شامل، ریاض کا افسوس

پاکستان پہلے ہی سے اس فہرست میں موجود ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کعبہ میں نماز ادا کرتے ہوئے۔ فوٹو:  اے ایف پی

یورپی کمیشن نے سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک کو ان ریاستوں کی سیاہ فہرست میں شامل کر دیا ہے جن کے ہاں دہشتگردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ (رقوم کی غیر قانونی منتقلی) کی روک تھام نرم ہے۔ تاہم سعودی عرب نے اپنے ردعمل میں اسے افسوسناک عمل قرار دیا ہے۔

کمیشن پر دباؤ تھا کہ وہ تیل سے مالا مال آمرانہ ملک کو فہرست میں شامل نہ کرے کیونکہ یورپی یونین کے چند رکن ممالک پریشان تھے کہ اس سے ان کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب پر الزام رہا ہے کہ وہ مسلم شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کو بڑی رقوم کی ادائیگیوں کو روکنے کے لیے ناکافی اقدامات کرتا ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے بیان کے مطابق سعودی عرب کا کہنا تھا کہ یہ قدم باوجود اس کے اٹھایا گیا کہ ریاض نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی معاونت روکنے کے لیے تمام عالمی قوانین کی توثیق کی ہے۔

یورپی کمیشن کے تازہ جائزے میں پاناما اور نائیجیریا سمیت امریکہ کے زیرِانتظام متعدد ریاستوں کو بھی سیاہ فہرست میں ڈالا گیا ہے۔

یورپی بینکوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ فہرست میں شامل ممالک میں ہونے والی ادائیگیوں کی سخت جانچ پڑتال کریں۔

کمیشن میں انصاف، صارفین اور صنفی مساوات کی کمشنر ویرا جورووا نے کہا: `منی لانڈرنگ کے تدارک کے لیے ہم نے دنیا کے سخت ترین معیار قائم کیے ہیں۔ لیکن ہمیں یقینی بنانا ہے کہ دیگر ملکوں سے گندی رقم ہمارے مالیاتی نظام تک نہ پہنچ جائے۔‘

’گندی رقم منظم جرائم اور دہشتگردی کی رگوں کا خون ہے۔ میں فہرست میں شامل ملکوں سے کہتی ہوں کہ وہ تیزی سے اپنی کمزوریوں کو حل کریں۔ دو طرفہ مفاد کی خاطر کمیشن ان کے ساتھ مل کر مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔‘

حالیہ مہینوں میں یورپی یونین کے بینک منی لانڈرنگ کے سکینڈلز سے دوچار ہوئے ہیں جن کے باعث موجودہ کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں دانسکے بینک اے ایس گندی رقم کے سکینڈل کی لپیٹ میں آیا جس میں مشکوک فنڈز کی جڑیں روس سے ملی تھیں۔  

 یورپی کمیشن کی اب 16 سے بڑھ کر 23 مالیاتی حدود پر مبنی ہے۔ برسلز نے سعودی عرب، لیبیا، بوٹسوانا، گھانا، سمووا، دی باہاماس اور امریکہ کے زیرِ انتظام علاقے امریکی سمووا، یو ایس ورجن آئی لینڈز، پورٹو رِکو اور گووام کو شامل کیا ہے۔

افغانستان، شمالی کوریا، ایتھوپیا، ایران، عراق، پاکستان، سری لنکا، شام، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، تیونس اور یمن پہلے سے فہرست میں تھے۔

بوسنیا ہرزیگووینا، گیانا، لاؤسئ یوگنڈا اور وینیواتو کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ یورپی یونین نے فیصلہ دیا کہ ان ملکوں میں بہتری آئی ہے۔

ایسے ممالک فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں جو یورپی یونین کے ساتھ قابلِ ذکر تعاون نہ کریں، جہاں شفافیت کا فقدان ہو یا ان کے ہاں منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کے خلاف کمزور پابندیاں ہوں۔

یورپی کونسل کی جانب سے فہرست کی توثیق لازم ہے جو رکن ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اِس کی منظوری کے لیے رکن ریاستیں رائے شماری کریں گی۔ یورپی کمشنر ویرا جورووا نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں اعتماد ہے کہ فہرست منظور کر لی جائے گی۔

یہ فہرست ایک اور یورپی یونین کی ایک اور فہرست سے الگ ہے جو اتنی متنازعہ ہے اور ٹیکس سے بچاؤ دلانے والے ملکوں کی سیاہ فہرست ہے۔ گزشتہ سال اس فہرست میں شامل ہونے والے ملکوں کی جانب سے غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ سمووا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو اور امریکہ کے زیرِانتظام تین علاقے امریکی سمووا، گووام اور ورجن آئی لینڈز دونوں فہرستوں میں شامل ہیں۔

تاہم بعض ناقدین کی رائے ہے کہ سیاہ فہرست خاصی نرم ہے۔ یورپی پارلیمان میں گرین پارٹی کے رکن سوین گیگلولڈ نے کہا: `گندی رقم کی چند سب سے بڑی واشنگ مشینیں تاحال شامل نہیں۔ روس، سٹی آف لندن اور اس کے آف شور علاقوں سمیت آزربائیجان شامل نہیں۔` 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا