ٹائیفائیڈ ویکسین کے لیے ’اہل محلہ سے گزارش ہے‘

سندھ میں دواؤں کے خلاف مدافعت رکھنے والے ٹائیفائیڈ کے کئی کیسز سامنے آنے کے بعد ایک خاص ویکسین تیار کرکے اسے بچوں کو مفت لگایا جا رہا ہے۔

’تمام اہل محلہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ حکومت سندھ کی طرف سے ٹائیفائیڈ ویکسینیشن 18 نومبر سے شروع ہو چکی ہے، جو 30 نومبر تک جاری رہے گی۔ تمام اہلِ محلہ سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ نو ماہ سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کو یہ مفت حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں۔ شکریہ۔‘

کراچی کے علاقے لیاری کی گلیوں میں مقامی لڑکیاں مائیکروفون ہاتھ میں پکڑے گلی گلی اردو اور بلوچی زبان میں یہ اعلان کرتی نظر آ رہی ہیں۔ یہ کمیونٹی سوشل آرگنائزیشنز (سی ایس اوز) یعنی مقامی سماجی تنظیموں کی تربیت یافتہ ٹیمیں ہیں جنہیں اس بار ٹائیفائیڈ کی ویکسینیشن مہم میں باقاعدہ شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں ویکسینیشن کے حوالے سے ماضی میں دیہی اور اکثر شہری علاقوں میں مختلف قسم کے خدشات اور تحفظات نظر آتے رہے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے پہلی بار ٹائیفائیڈ ویکسینیشن پروگرام میں مقامی سماجی تنظیموں کو شامل کیا گیا ہے۔

لیاری ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی اصیلہ عبداللہ کے مطابق ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی اس مہم میں سی ایس اوز کو شامل کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ گذشتہ مہمات میں جہاں سے کمیونٹی کی طرف سے کچھ مزاحمت محسوس ہوئی ہے، اس کو کسی حد تک کم یا کَور کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا: ’سی ایس اوز اُن علاقوں کی کمیونیٹیز میں کام کرتی ہیں تو انہیں وہاں کی زیادہ سمجھ بوجھ ہوتی ہے۔ اس لیے سی ایس اوز ان علاقوں میں لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں مائل کرسکتی ہیں۔ اس مہم کے لیے مقامی لوگوں کی شمولیت بہت زیادہ ضروری ہوتی ہے کیونکہ مقامی لوگ ہی مقامی لوگوں کو پہچانتے ہیں۔‘

ان مقامی تنظیموں کا کام گھر گھر جا کر لوگوں کو ویکسینیشن کے بارے میں آگہی دینے کے ساتھ قائل کرنا بھی ہے۔ اس کے لیے مقامی مساجد اور دوسری مذہبی عبادت گاہوں سے اعلانات بھی کروائے جا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچایا جا سکے۔

صوبہ سندھ میں گذشتہ سالوں کے دوران ڈرگ ریزیسٹنٹ ٹائیفائیڈ یا دواؤں کے خلاف مدافعت رکھنے والے ٹائیفائیڈ جرثومے کے سینکڑوں کیسز سامنے آنے کے بعد یہ ویکسین خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور بین الاقوامی ادارے گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمیونائزیشن (گاوی) اس ویکسین کی فراہمی میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پروگرام کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کے بعد باقی ملک میں 2020 تک مکمل کیا جائے گا۔

کراچی ساؤتھ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ارشاد شاہ اس مہم میں سی ایس اوز کے کام سے بہت مطمئن نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ کمیونٹی کے ہیں اور اس وجہ سے لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

ٹائیفائیڈ کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب پینے کا آلودہ پانی اور ایسے تنگ شہری علاقے ہیں جہاں گندگی اور پانی کی نکاسی کا انتظام درست نہیں۔ اس کے علاوہ ٹھیلوں پر غیر محفوظ انداز میں کھانے پینے کی اشیا بچوں تک پہنچنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کے اس مہلک جرثومے (ایکس ڈی آر) پر بہت سی اینٹی بایوٹکس کا اثر اس لیے بھی نہیں ہو رہا کیونکہ عطائی ڈاکٹروں اور غلط میڈیکل پریکٹس کے دوران مریضوں کو بلا ضرورت اینٹی بایوٹکس دی گئیں، جن کو مکمل مدت کے لیے استعمال بھی نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ نئی ویکسین اس جرثومے کے خلاف مظبوط قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔

لیاری کی رہائشی مہوش دانش جب اس مہم میں اپنے بچوں کو ویکسین لگوا کر آئیں تو بہت مطمئن انداز میں انہوں نے بتایا: ’پہلے ہمیں پتہ نہیں تھا۔ جب میرے بیٹے کو ٹائیفائیڈ بخار ہوا تھا تو ہمارا بہت پیسہ خرچ ہوا تھا، لیکن اب ہمیں ویکسین کا پتہ چلا ہے۔ لڑکیاں آئی ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ہم آنکھیں بند کرکے بھی ان پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت