چینی حراستی مراکز: قیدیوں کی ٹوائلٹ میں بھی نگرانی

لیک ہونے والی حالیہ حکومتی دستاویزات کے مطابق مقامی افسران سے کہا گیا کہ وہ سنکیانگ کے ان کیمپوں میں قیدیوں کی ہر وقت نگرانی کریں، حتیٰ کہ ٹوائلٹ کے وقفے میں بھی، تاکہ وہ فرار نہ ہوسکیں۔

دستاویزات کے مطابق طلبہ بتائی گئی سرگرمیوں کے علاوہ بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں کرسکتے (اے ایف پی)

چینی صوبے سنکیانگ میں قائم حراستی مراکز میں نظر بند کیے گئے افراد کی کڑی نگرانی اور فرار کو روکنے کے لیے دروازوں پر دہرے تالے لگائے جانے سے متعلق لیک ہونے والی حکومتی دستاویزات بیجنگ حکومت کے اُن دعوؤں کی نفی کرتی ہیں، جن میں ان مراکز کو ’پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز‘ قرار دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کو موصول اور دنیا بھر کے 17 میڈیا اداروں کی جانب سے اتوار کو شائع کی گئی ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سنکیانگ کے ان کیمپوں کے لیے انتہائی سخت قوانین وضع کیے گئے ہیں، جہاں دس لاکھ اویغور اور دیگر اقلیتیں موجود ہیں، جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔

ایک دستاویز میں مقامی افسران سے کہا گیا کہ وہ قیدیوں کی ہر وقت نگرانی کریں، حتیٰ کہ ٹوائلٹ کے وقفے میں بھی، تاکہ وہ فرار نہ ہوسکیں۔ جب کہ دستاویزات میں  مراکز کے عملے کو قیدیوں سے دوستی کرنے یا ذاتی گفتگو کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

چین میں نسلی تعلقات کے ماہر اور میلبرن لا ٹروب یونیورسٹی میں پروفیسر جیمز لی بولڈ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ان دستاویزات نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے اس بیانیے کو ختم کردیا ہے کہ یہ مراکز پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز ہیں جہاں اویغور اور دیگر چینی مسلمانوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’اس کی بجائے یہ دستاویزات ’پارٹی کے اپنے الفاظ میں ۔۔۔ ان نظربندیوں کے جبری اور ماروائے عدالت ہونے کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔‘

یہ دستاویزات نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہیں، جس میں افشا ہونے والی 400 صفحات پر مشتمل دستاویزات کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے 2014 میں ہونے والے ایک حملے کے بعد اس خطے میں علیحدگی اور انتہاپسندی کے خلاف ’انتہائی بے رحمانہ کارروائی‘ کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 2014 میں اویغور مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے جنوب مغربی چین میں ایک ریل گاڑی پر حملہ کرکے 31 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد صدر شی نے سرکاری حکام سے خطاب میں ’دہشت گردی، دراندازی اور علیحدگی پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن‘ شروع کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سلسلے میں بالکل کوئی رحم نہ کیا جائے۔

ابتدا میں چین کی جانب سے ان مراکز کی ترید کی گئی، تاہم بعد میں بیجنگ نے اعتراف کیا کہ اس نے سنکیانگ میں ’پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز‘ کھولے ہیں تاکہ تعلیم اور تربیت کے ذریعے شدت پسندی کو روکا جاسکے۔

لیک ہونے والی حالیہ دستاویزات میں سنکیانگ کے سکیورٹی چیف کی جانب سے حراستی مراکز کے لیے منظور کی گئی گائیڈ لائنز کی ایک فہرست بھی شامل ہے، جب کہ اس میں انٹیلی جنس کے حوالے سے معلومات بھی شامل ہیں کہ کس طرح پولیس ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ان حراستی مراکز کے رہائشیوں کا انتخاب کرسکتی ہے۔

دستاویزات کے مطابق حکام کو انتہائی سخت سکیورٹی برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا جب کہ عملے کو مراکز  کے ’تعلیمی اور انتظامی علاقوں‘  میں موبائل فون یا کیمرہ لانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

آئی سی آئی جے کے مطابق ان دستاویزات میں قیدیوں کو طلبہ قرار دیا گیا، جن کے لیے کیمپ سے ’گریجویشن‘ کرنا لازمی ہے۔  گائیڈ لائنز میں یہ بھی بتایا گیا کہ سٹاف کو اپنے روزمرہ کے معمولات کس طرح سے ترتیب دینے ہیں، مثلاً ہیئرکٹ اور شیو کے اوقات وغیرہ۔

دستاویزات کے مطابق طلبہ بتائی گئی سرگرمیوں کے علاوہ بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں کرسکتے جب کہ عملہ  طلبہ کی جانب سے چھٹی کی درخواستوں پر سختی سے نظر رکھے گا اور اگر انہیں واقعی بیماری یا کسی اور وجہ سے تربیتی مرکز سے باہر جانا ہو تو خاص طور پر کوئی ان کے ساتھ ہوگا۔‘

مزید کہا گیا کہ ان مراکز کی کلاسوں اور تمام حصوں کی مکمل ویڈیو نگرانی ہوگی اور ڈیوٹی پر موجود گارڈ اسے رئیل ٹائم میں مانیٹر کرے گا، چیزوں کو تفصیل سے ریکارڈ کرے گا اور کسی بھی  مشکوک معاملے کی فوراً رپورٹ کرے گا۔‘

سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے نئے سربراہ چن کوانگو کے تقرر کے بعد حراستی مراکز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا