ایرانی حکومت کا خطرناک سوشل میڈیا آپریشن اور خفیہ ایجنسی اکاؤنٹس

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جدید جعلی اکاؤنٹس اب لوگوں سے براہ راست گفتگو کر رہے ہیں۔ فیس بک کے مطابق وہ انفرادی طور پر بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں۔

جب سرکاری اکاؤنٹس سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تو قارئین کو اس بارے میں تنبیہہ کی جانی ضروری ہے کہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ مکمل طور پر غلط ہو سکتا ہے۔(پکسابے)

ایران کے عوام اس وقت مذہبی آمریت کے خلاف ایک قومی بغاوت کے درمیان ہیں۔ حکومت نے لوگوں کو منظم ہونے اور معلومات سے محروم رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اس مشکل وقت میں میرا دل میرے ملک کے لوگوں کے ساتھ ہے۔

یہ آرٹیکل میں نے کچھ ہفتے قبل اپنی یونیورسٹی کے پروجیکٹ کے طور پر لکھا تھا جس کا مقصد میرے ہم وطنوں تک معلومات پہنچانے کی کوشش کرنا تھا۔ ایرانی حکومت اس انفارمیشن کو لوگوں تک پہنچنے سے روکنا چاہتی ہے جو اس کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے۔

گو ایران کے ساڑھے آٹھ کروڑ عوام پر فیس بک، یوٹیوب ، ٹوئٹر اور باقی معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی پابندی ہے لیکن یہ تمام فورمز ایران میں بہت مقبول ہیں حتی کے حکومتی اہلکاروں میں بھی۔

ایک جانب جہاں ایران کے عوام ان تمام فورمز کو استعمال کرنے سے محروم ہیں وہیں دوسری جانب ایران کے سرکاری اہلکار ان امریکی پلیٹ فارمز پر اپنے نظریات کی ترویج کے لیے لمبے اور طویل مضمون لکھتے ہیں۔ جس کا مقصد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا اور آزاد دنیا پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ افراد ان فورمز تک رسائی رکھتے ہیں جس کے استعمال کی عوام کو اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کا واحد مقصد انہیں قابو میں رکھنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

جب سرکاری اکاؤنٹس سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تو قارئین کو اس بارے میں تنبیہہ کی جانی ضروری ہے کہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ مکمل طور پر غلط ہو سکتا ہے۔ ایرانی حکومت وہ واحد حکومت نہیں ہے جو اپنے شہریوں کو آزادی نہ دینے کی مرتکب ہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے جس میں بدعنوان حکومتیں ایسا ہی طرز عمل اپناتی ہیں۔ لیکن ایرانی حکومت اور اس جیسی باقی آمریتیں ایک بہت خطرناک اور آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والا سوشل میڈیا آپریشن چلا رہی ہیں۔

2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی دخل اندازی کا معاملہ کافی مشہور ہے۔ ریاستی حمایت یافتہ جھوٹ پھیلانا اور ’ٹرولنگ‘ کی مہم عالمی خبروں اور زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اکثریت ان ٹرولز اور مہم چلانے والی کمپنیوں سے واقف ہے سوائے ان پلیٹ فارمز کے جہاں یہ ریاستی حمایت یافتہ آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ان مہمات کے مقاصد کے بارے میں کچھ زیادہ واضح نہیں ہے نہ ہی یہ واضح ہے کہ سوشل میڈیا کی کمپنیز کو اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔

 دی انسٹیٹیوٹ آف فیوچر نامی ادارے نے اپنی رپوٹ میں ریاستی حمایت یافتہ ٹرولنگ کو ’ایک ہتھیار جو کہ حکومتیں اپنے ناقدین کے خلاف استعمال کرتی ہیں، مہم جس کا مقصد غلط خبریں پھیلانا ہو اور اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی ایک منظم کوشش‘ کے طور پر شناخت کیا ہے۔

ایرانی حکومت ان مہمات کے حوالے سے بہت نام رکھتی ہے۔ رواں سال موسم گرما میں ٹوئٹر نے عوامی طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک ٹیرا بائٹ سے زائد ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے جو کہ ہزاروں اکاؤنٹس سے جڑا ہے جو بالواسطہ طور پر ایرانی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کسی اور حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

سوشل میڈیا کمپنیز جیسے فیس بک اور ٹوئٹر اس حوالے سے ان خطرناک اکاؤنٹس اور مہمات کے خلاف مناسب اقدامات لے رہی ہیں۔ گو کہ ان کمپنیز کی جانب سے اس طریقہ کار کو بیان نہیں کیا جو ان مہمات کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈیٹا سائنس کی تحقیق اور مشینوں کے جدید استعمال سے ہمیں کچھ نشانیاں ملتی ہیں۔

اس حوالے سے پہلا قدم مشتبہ ریاستی حمایت یافتہ مہمات کی خصوصیات کی شناخت ہے۔ اکثر اوقات اس کا پتہ کچھ اشاروں جیسے کہ فالوورز اور فالوونگ کے تناسب، پوسٹوں کی طوالت اور باقی نظر آنے والی نشانیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب ایک بار یہ ڈیجیٹل فٹ پرنٹ سامنے آجائے تو انجنئیر ایک مشینی ماڈل بناتے ہیں جو ایسی ہی مشتبہ پوسٹس کی نشاندہی بطور ریاستی حمایت یافتہ مہم کے طور پر کرتے ہیں۔ آخر کار اس ماڈل میں معلومات ڈالنے جیسے کہ ہاں یا نہیں جیسے الفاظ ڈالنے سے مصنوعی ذہانت اس ماڈل کو مزید بہتر بنا کر جعلی اکاؤنٹس کی درست شناخت کر سکتی ہے۔

دنیا کی صف اول کی سوشل میڈیا کمپنیز کے پاس موجود انجنیئرز کی فوج اس حوالے سے مزید پیچیدہ نظام اور حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں جو ریاستی حمایت یافتہ اکاؤنٹس کا تجزیہ کر سکیں۔ ان کمپنیز کی جانب سے تحقیق اور بڑے پلیٹ فارمز پر موجود اکاؤنٹس کی بنیاد پر ابھی تک تہران جیسی حکومتوں کی حمایت یافتہ جھوٹ پھیلانے کی مہم پر ہی توجہ رہی ہے۔ لیکن ایک جدید اور زیادہ خطرناک صورت حال ان جعلی اکاؤنٹس سے متعلق ہے جو کہ ایک اصل انسان جیسا یا بہت دوستانہ طرز عمل اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جدید جعلی اکاؤنٹس اب لوگوں سے براہ راست گفتگو کر رہے ہیں۔ فیس بک کے مطابق ’وہ انفرادی طور پر بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ میرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور میرے حلقہ احباب میں موجود ایران اور ایران سے باہر رہنے والے افراد میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔

میں نے ایسی مہموں کے متاثرین کی لاتعداد کہانیاں سنی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹس کے ساتھ رابطہ رکھنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ان اکاؤنٹس کے پیچھے کون بیٹھا ہے۔ بدقسمتی سے وہ خوفزدہ ہیں کہ ان اکاؤنٹس کے پیچھے کوئی حکومتی خفیہ ایجنسی کا اہلکار بیٹھا ان شہریوں کا کھوج لگا رہا ہوگا جو حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ جعلی اکاؤنٹس کی تعداد بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

وہ لوگ جو فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر تک وی پی این سروس کے ذریعے رسائی رکھتے ہیں اور ملک سے باہر رہنے والے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ان پلیٹ فارمز کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کی جا سکے جو ریاستی حمایت یافتہ جعلی اکاونٹس سے لاحق ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے یوٹیوب نے ریاستی حمایت یافتہ چینلز کی شناخت کر رکھی ہے جیسے کہ بی بی سی، ان اکاؤنٹس کو بھی اسی طرح ایک شناخت دے دی جائے۔

 ایسی ہی ایک شناختی علامت ان ریاستی حمایت یافتہ اکاؤنٹس پر لگائی جا سکتی ہے تاکہ صارفین کو معلوم ہو سکے کہ وہ اس پلیٹ فارم پر مشتبہ سمجھے جانے والے اکاؤنٹ سے رابطہ رکھ رہے ہیں۔ اس سے انہیں بھی فائدہ ہوگا جنہیں غلط بنیاد پر ریاسی حمایت یافتہ اکاؤنٹ سمجھا جاتا ہے۔ اضافی طور پر جب ایک فرد یہ رپورٹ کرتا ہے کہ اسے گالی دی جا رہی ہے یا کسی مشکوک اکاؤنٹ کو رپورٹ کیا جاتا ہے کمپنی کی جانب سے یہ فیڈ بیک کہ وہ اس حوالے سے کام کر رہے ہیں لوگوں کا اس پلیٹ فارم پر اعتماد بڑھا سکتا ہے۔ بجائے اس کے یہ شکایت کہیں کنویں میں پھینک دی جائے۔

لیکن بڑا مسئلہ ابھی بھی باقی ہے: مشینی ماڈل اور مصنوعی ذہانت کے کی صلاحیتیں کمپنیز کو اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ کچھ اکاؤنٹس اور مہمات کی نشاندہی کر سکیں جو اسلامی جمہوریہ اور باقی حکومتوں سے چلائی جا رہی ہیں لیکن ان کوششوں کو بڑھانا ہوگا۔ یہ ریاستی حمایت یافتہ مہمات اب جدت اختیار کر رہی ہیں۔ وہ پلیٹ فارم جو لوگوں کو آواز دینے اور متحد کرنے کے لیے بنائے گئے تھے انہیں تقسیم کرنے اور خاموش کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ