ریپ کرنے والے چاروں ملزمان جائے وقوعہ پر قتل

انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ احتساب سے بچنے کے لیے ’غیر قانونی تشدد ‘ کو استعمال کر رہی ہے۔

ان چاروں افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے نومبر میں ایک 27 سالہ ویٹرینری ڈاکٹر خاتون کا ریپ کرنے کے بعد انہیں قتل کیا تھا۔(اے ایف پی)

جمعے کو بھارتی پولیس نے گینگ ریپ اور قتل کی واردات میں ملوث مشتبہ ملزمان کو جائے وقوع پر جرم کی نشاندہی کے دوران مار ڈالا۔ اس واقعے کے ردعمل میں غم و غصے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر خوشی کا اظہار بھی کیا گیا۔

پولیس کے مطابق یہ چاروں افراد ایک ہفتے سے پولیس کی حراست میں تھے۔ ان افراد کو جمعے کی صبح حیدر آباد میں اپنے جرم کی نشاندہی کے دوران فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

پولیس کے ڈپٹی کمشنر پرکاش ریڈی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ یہ افراد فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ انہوں نے پولیس سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی لیکن انہیں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا۔‘

ان چاروں افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے نومبر میں ایک 27 سالہ ویٹرینری ڈاکٹر خاتون کا ریپ کرنے کے بعد انہیں قتل کیا تھا۔ خاتون ڈاکٹر نے اپنی سکوٹی ایک مصروف شاہراہ پر پارک کر رکھی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزمان نے سکوٹی کے ٹائر سے ہوا نکالنے کے بعد متاثرہ ڈاکٹر کو مدد کرنے کے بہانے ٹرکوں کے اڈے پر بلا کر ان کا ریپ کر دیا۔ ریپ کرنے کے بعد خاتون کو ایک پل کے نیچے آگ لگا دی گئی۔

قانونی وجوہات کی بنیاد پر خاتون کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ متاثرہ خاتون نے ٹائر کی ہوا نکالے جانے کے بعد اپنی بہن کو فون کر کے اطلاع دی تھی کہ وہ مدد کی پیشکش کرنے والے ان افراد سے خوف زدہ تھیں جس کے کچھ دیر بعد ان کا فون بند ہو گیا۔

اس واقعے کے ردعمل میں مظاہرے اور فوری انصاف کے مطالبے دیکھنے میں آئے۔ سوشل میڈیا پر ان افراد کو موت کی سزا دینے کے مطالبے زور پکڑ گئے تھے۔

ان ملزمان کی گرفتاری کے بعد سینکڑوں مظاہرین نے حیدرآباد کے اس پولیس سٹیشن پر دھاوا بول دیا تھا جہاں ان ملزمان کو رکھا گیا تھا۔

دہلی میں ہونے والے ایک مظاہرے میں خواتین نے تلواریں اٹھا کر شرکت کی ۔ پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے دوران اجلاس ان افراد کو ’مار پیٹ کر قتل کر دینا چاہئیے‘  کے ریمارکس دئیے جب کہ ایک اور رکن نے ان افراد کو آختہ کر دینے کی تجویز بھی پیش کی۔

جمعے کو ان افراد کی ہلاکت کی جگہ پر پر سینکڑوں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ شہریوں کی جانب سے پٹاخے چلا کر اور پولیس پر پھولوں کی پتیاں پھینک کر جشن منایا۔ متاثرہ ڈاکٹر کی بہن نے بھی ان ہلاکتوں پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مقامی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خوش ہوں کہ چاروں ملزمان پولیس مقابلے میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ واقع ایک مثال بن سکتا ہے۔ میں میڈیا اور پولیس کا ان کی حمایت پر شکریہ کرتی ہوں۔‘

اطلاعات کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں بھی ان افراد کی ہلاکت پر جشن منایا گیا۔

لیکن انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ احتساب سے بچنے کے لیے ’غیر قانونی تشدد ‘ کو استعمال کر رہی ہے۔

بھارت میں پولیس پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ قانونی مراحل کو نظر انداز کرتے ہوئے ماورائے عدالت قتل کے طریقے کو استعمال کرتی ہے۔ ایسا اکثر عوامی غصے کو دبانے کے لیے من مانی تفتیش کے نتیجے میں کیا جاتا ہے۔

ماہر قانون اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ورندا گرور نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ پولیس کا احتساب ہونا بہت ضروری ہے۔ تفتیش اور مقدمے چلانے کے بجائے ریاست احتساب اور عوامی غصے سے بچنے کے لیے قتل کر رہی ہے۔‘

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2017 میں بھارت مین 33 ہزار ریپ کے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کی بہت بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہو سکی۔

بھارت کے سست نظام قانون میں مقدموں کی ایک بہت بڑی تعداد کے زیر التوا ہونے کی وجہ سے متاثرین سالوں تک اپنے حملہ آوروں کو سزا ملنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا