پھولوں کے شہر میں۔۔۔ نوجوان کیا سوچتے ہیں؟

نوجوانوں نے کہا کہ انہوں نے کتنی بار وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل پر اپنی شکایات درج کروائیں۔ شکایات کا ازالہ ہوا یا نہیں ہوا، یہ الگ بحث ہے لیکن یہ عمل یہاں اجتماعی شعور اور عموی فکر کی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

باجوڑ کے نوجوان روایتی رقص اتن کرتے ہوئے (تصویر: ڈاکٹر اشرف علی)

پاک افغان سرحد کے قریب تحصیل ماموند کے پرفضا مقام بادیسئی میں شام کا ایک حصہ چرا کر قدرت کے روح پرور مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک لمحے کو یوں لگا جیسے میں خوابوں کی دنیا میں چلا گیا ہوں۔

لیکن کچھ توقف کے بعد اپنے اردگرد مشہور لوک دھن لوگرے پر نوجوانوں کو ڈھول کی تاپ پر ناچتے ہوئے دیکھ کر احساس ہوگیا کہ میں واقعتا پھولوں کے اس شہر میں موجود ہوں جہاں پر زندگی ہر دم جھومتی نظر آتی ہے۔

پھولوں کے اس شہر کی معطر فضاؤں سے اس وقت بارود کی بو آنے لگی جب 2008 کے اواخر میں باجوڑ میں آگ و خون کا کھیل گرم ہوگیا۔ دہشت گردی کے بڑھتے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جب حکومت نے اگست 2008 میں آپریشن شیردل کا  آغاز کیا تو باجوڑ کی تقریبا نصف آبادی کو بےگھر ہونا پڑا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا پانچ لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر زندگی کی راتیں اس امید پر صبح کرنے لگے کہ کہیں نہ کہیں ان کی زندگی میں دوبارہ بہاریں آنے لگیں گی۔

 تقریبا ایک دہائی پر محیط گو کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں علاقہ مکینوں کوبہت سی قر بانیان دینی پڑیں۔ ان کے گھربار لٹ گئے، ان کے پیارے اپنی جانوں سے گئے، پناہ گزین کیمپوں میں زندگی کی تلخ راتیں گزارنے پر مجبور ان لوگوں کو طرح طرح کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں لیکن آخرکار ان کی قربانیاں رنگ لے آئیں۔

آج اس جنگ زدہ علاقے میں زندگی پھر سے لوٹ آئی ہے۔ مغرور کوہ مور کے باسیوں میں زندگی کی ایک نئی امنگ پیدا ہوئی ہے جس سے  علاقے میں زندگی کے بدلتے رنگ نمایاں ہیں۔

نوجوان ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر مہذب دنیا کے سنگ جانا چاہتے ہیں۔  باجوڑ کے ہیڈکوارٹر خار میں نوجوانوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں باجوڑ یوتھ جرگہ کے محمد جاوید کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعدعلاقے کے عوام پرامید تھے کہ اس عمل کے بعد علاقے میں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی لیکن اس کے برعکس حکومتی کارکردگی بڑی مایوس کن رہی۔ ان کے مطابق حکومتی ترجیحات کی فہرست ہی غلط ہے۔ انہوں نے کہا انہیں تعلیم چاہیے، صحت اور روزگار چاہیے، پکی سڑکیں اور بنیادی ضروریات چاہیے لیکن حکومت تھانے بنا کر ہمیں ہراساں کر رہی ہے۔ ہمارے اوپر جرمانے اور ٹیکس لگا کر ہمیں اس نظام سے متنفر کر رہی ہے۔

ایف سی آر کے تحت عوام کو سیاسی عمل سے نکالنے کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ عوام اور ریاستی اداروں کے مابین موجود خلیج مزید بڑھتی گئی اور بالآخر ریاستی اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہاں دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع ملا۔

گورنمنٹ کالج خار کے طالب علم سخی بہادر کے مطابق عوام کے اندر اس نظام کو محبوب بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان کو سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔ ان کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ نوجوانوں کا خیال ہے کہ علاقے میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے ایک طرف اس جنگ زدہ علاقے میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں تو دوسری طرف نوجوانوں کو دہشت گردی کی لعنت سے دور رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 گذشتہ چند سالوں کے دوران پاک افغان دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالرز سے کم ہو کر صرف پانچ سو ملین روپے تک رہ گیا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد شنواری کے مطابق نئے ضم شدہ اضلاع میں پاک افغان سرحد پر زیادہ سے زیادہ تجارتی راستے کھلوا کر یہ حجم سالانہ تقریبا آٹھ ہزار ارب روپے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ نوجوان صحافی فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں پاک افغان سرحد پر کگہ پاس، نوا پاس اور غاخ پاس کو کھلوا کر اس ہدف کو حاصل کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نوجوان سماجی کارکن عبدالحق حقیار نے کہا کہ باجوڑ کے علاقہ ماموند اور سالارزئی میں اگر سیاحت کے فروغ پر توجہ دی جائے تو روزگار کے کافی سارے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔

عوام کے عموی رویوں میں تبدیلی کے لیے گو کہ ایک لمبی عمر چاہیے لیکن نوجوانوں کے افکار اور ان کی سوچ میں واضح تبدیلی اس بات کا مظہر ہے کہ علاقے کا عمومی مزاج بدل رہا ہے۔

نوجوانوں کے ساتھ خصوصی نشست میں تقریبا ہر شریک گفتگو نے کہا کہ انہوں نے کتنی بار وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل پر اپنی شکایات کے ازالے کے لیے رجوع کیا لیکن شکایات کا ازالہ ہوا یا نہیں ہوا، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ عمل اس اجتماعی شعور اور عموی فکر کی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ