برطانوی انتخابات: وزیر اعظم بورس جانسن کی پارٹی فاتح

پارلیمنٹ کی 650 میں سے 642 نشستوں کے نتائج سامنے آنے تک کنزرویٹو پارٹی کو 358 نشستوں پر برتری حاصل ہے جبکہ لیبر کو 203 سیٹیں ملیں۔

 حامیوں سے  خطاب میں جانسن نے کہا کہ برطانیہ 31 جنوری تک یورپی یونین سے نکل جائے گا (اے ایف پی)

جمعرات کو عام انتخابات کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے پارلمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کر لی ہے جس کے بعد ان کے لیے اگلے ماہ بریگزٹ یعنی برطانیہ کے لیے یورپی یونین سے باہر جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو پارلیمنٹ کی 650 میں سے 642 نشستوں کے نتائج سامنے آنے تک کنزرویٹو پارٹی کو 358 نشستوں پر برتری حاصل ہے جبکہ لیبر کو 203 سیٹیں ملی ہیں۔

جمعے کو حامیوں سے ایک خطاب میں جانسن نے کہا کہ برطانیہ 31 جنوری تک یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا: ’ہم 31 جنوری تک بریگزٹ کریں گے۔ کوئی اگر، مگر اور شاید نہیں۔‘

اس سے قبل جمعرات کی شام تک سامنے آنے والے ایگزٹ پولز وزیر اعظم کی کنزرویٹو پارٹی کی جیت کے واضح امکانات کی پیشگوئی کر رہے تھے۔

2017 کے انتخابات میں لیبر پارٹی نے 262 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ کنزرویٹو پارٹی 318 نشستوں پر فتح یاب ہوئی تھی۔

اس فتح نے بورس جانسن کو مارگریٹ تھیچر کے بعد اب تک کا سب سے کامیاب کنزرویٹو رہنما بنا دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر کو بھی بورس جانسن کی طرح تقریباً برابر تعداد میں تعریف اور تنقید کرنے والے افراد کا سامنا رہا تھا۔

یہ 1980 کے ہے ڈے میں مارگریٹ تھیچر کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی فتح ہے۔

ان نتائج سے بورس جانسن کو فتح جبکہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لیبر رہنما جیرمی کوربن کو شکست ملی ہے۔ ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی جیرمی کوربن پر فوری طور پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ رہا ہے جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اگلے انتخابات میں پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے۔ 

ابتدائی نتائج کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کی حمایت میں اضافہ ہوتا دکھائی دیا ہے۔ لیبر پارٹی کے گڑھ سمجھے جانے والے شمالی انگلینڈ میں بھی کنزرویٹو پارٹی کئی نشستوں پر آگے ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے لیبر جماعت کا مضبوط قلعہ سمجھے جانے والا ورکنگ ٹاون کے علاقے میں بھی کنزرویٹو پارٹی کو کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کی واضح فتح جمعرات کو ہونے والے قبل از وقت انتخابات کے بورس جانسن کے فیصلے کو درست ثابت کر دے گی۔ یہ انتخابات مقررہ وقت سے دو سال پہلے کروائے گئے۔ انتخابات سے قبل بورس جانسن کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو جماعت کی فتح بریگزٹ کے معاملے پر ان کے موقف کی حمایت ہو گی۔ بورس جانسن 31 جنوری 2020 کی ڈیڈ لائن تک برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔

ایگزٹ پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورس جانسن کے اس وعدے نے کہ وہ ’بریگزٹ کر گزریں گے‘ نے لوگوں کو عمومی طور پر لیبر پارٹی کے حامی سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی کنزرویٹو پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیا۔

بورس جانسن نے اپنی ایک ٹویٹ میں اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’پورے ملک کے تمام لوگوں کا شکریہ۔ ووٹ ڈالنے والے، رضاکاروں، اور امیدواروں سب کا شکریہ۔ ہم دنیا کی سب سے عظؓیم جمہوریت میں رہتے ہیں۔‘ انہوں نے ایگزٹ پول کا ذکر نہیں کیا۔

یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے وعدہ کیا ہے کہ جمعے کو پورپی رہنماؤں کی ملاقات میں برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ کو مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ’سخت پیغام‘ بھیجا جائے گا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈیر لین کا کہنا تھا: ’ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

2016 میں بریگزٹ پر ووٹنگ میں 52 فی صد افراد نے علیحدگی کے حق میں جبکہ 48 فی صد نے 28 رکنی یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا ووٹ دیا تھا۔ قانون ساز علیحدگی کی شرائط طے کرنے میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔

بورس جانسن نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تو یہ 1923 کے بعد سے پہلی بار دسمبر میں ہونے والے برطانوی انتخابات تھے۔ انتخابات میں بورس جانسن کی فتح کے بعد 2016 ریفرنڈم کے فیصلے پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے اور برطانیہ اور 27 یورپی ممالک کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔    

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتخاب کے لیے ووٹنگ جمعرات کو مکمل ہوئی۔ یہ گذشتہ پانچ برس سے بھی کم عرصے میں برطانیہ میں ہونے والے تیسرے عام انتخابات ہیں۔ انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں 650 حلقوں میں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا جو رات دس بجے تک جاری رہا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی شہریوں نے شدید سردی اور ٹھنڈی ہوا میں قطاریں بنا کر ووٹ ڈالا۔ وزیر اعظم بورس جانس اور لیبر پارٹی کےجیریمی کوربن نے موجودہ الیکشن کو برطانوی شہریوں کی ایک نسل کے اہم ترین انتخابات قرار دیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق برطانوی عام انتخابات بے حد منقسم ماحول میں ہوئے۔ ووٹروں کے سامنے تاریخی نوعیت کا انتخاب تھا۔ پہلی صورت میں یورپی یونین سے برطانیہ کی ناگزیر علیحدگی کا راستہ تھا جبکہ دوسری صورت یہ تھی ایک بار پھر ریفرنڈم کروایا جائے جو بریگزٹ کے تمام منصوبے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتا ہے۔

ٹوری جماعت کے وزیراعظم بورس جانسن کی فیصلہ کن فتح کی صورت میں جنوری کے آخر تک برطانیہ کے 46 برس تک یورپی یونین کا رکن رہنے کے بعد اس کی یونین سے علیحدگی تقریباً یقینی ہو گی۔

دوسری جانب حزب اختلاف کی کامیابی کی صورت میں بریگزٹ کا تمام عمل الٹا ہو سکتا۔ اس صورت میں کوربن کی قیادت میں برطانیہ کو دہائیوں میں انتہائی بائیں بازو کی حکومت ملے گی۔

 کوربن ایک معروف سوشلسٹ ہیں جو اداروں کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے اور سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر اخراجات کے عزم پر کاربند ہیں۔

لندن کی رہائشی ووٹر ناؤمی بیوتھے کا کہنا ہے کہ حکومت کو طویل عرصے سے ایک مشکل صورت حال کا سامنا تھا اور ہمیں معاملات کو آگے بڑھانےکی ضرورت تھی۔

رائے عامہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی کو بہت تھوڑے مارجن سے برتری حاصل ہے لیکن ووٹر 2017 کے عام انتخابات کے بارے میں تقریباً متفقہ طور پر غلطی پر تھے۔

جانسن نے آج ووٹ کاسٹ کرتے وقت اپنا کتا اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد کتے کو چوما اور کہا کہ انتخابی نتائج چھری کی دھار پر ٹکے ہوئے ہیں۔

یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کے بعد برطانوی پارلیمنٹ 2016 سے تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہ ہے ریفرنڈم میں بریگزٹ کے لیے اکثریتی ووٹ بہت کم تھے۔

ایسے نتائج سے مالیاتی مارکیٹیں بری طرح متاثر ہوئیں اور برطانیہ میں سیاسی عمل مفلوج ہو کر رہ گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ