آگے آتی تھی حالِ دل پر ہنسی۔۔۔۔

ہمارے وکلا کی جھتہ گردی میں حیرت کا ایک بڑا پہلو ہے، مگر یہ دیکھ کر میں تو سہم گیا ہوں کہ اب ہم اس پر بھی حیرت زدہ نہیں ہیں۔

کیا یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہوگی کہ عدالت نے ضائع ہونے والی جانوں کا حساب مانگنے کی بجائے ہاتھیوں سے باہمی صلح کی عرضی گزار دی ہے؟ (اے ایف پی)

وکلا نے لاہور کے پی آئی سی ہسپتال میں جو کچھ کیا، اس میں آپ کو کس بات پر حیرت ہوئی؟ وکلا کا جلوس نکالنا؟ وہ تو نکلتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو دھمکی دینا؟ وہ تو ڈاکٹروں کا آئے روز کا نصیب ہے۔ ہسپتال پر ہلہ بولنا؟ ایسا ہم نے پہلے کب نہیں کیا۔ پولیس کی گاڑی کو آگ لگانا؟ پولیس کا محکمہ تو شاید ہے ہی اس واسطے کہ اس پر اپنا زور آزمایا جائے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات پر ہونے والے تشدد پر حیرت ہوئی؟ اس میں ایسا نیا کیا ہے؟ اس پورے منظرنامے میں کچھ بھی تو ایسا نہیں ہے جس پر پاکستان میں رہتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا جائے۔

ہماری حیرتوں کی سطح اتنی بلند ہے کہ وہاں یومیہ تیس چالیس قتل، ماہانہ دھماکے، ہفتہ وار تشدد زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ اٹلی کے جزیرے لپاری میں کوئی آٹھ برس قبل نیو ائیرنائٹ کے موقع پر ایک شخص قتل ہوا تو مارے خوف کے لوگ تین دن گھر سے نہیں نکلے۔ ایک ہفتہ پورے لپاری میں تعلیمی ادارے بند رہے اور کاروباری سرگرمیاں جزوی طور پر جاری رہیں۔

لپاری کے مقابلے میں لیاری کو رکھ کر دیکھ لیں تو آپ کو لپاری والوں پر ترس آئے گا کہ اِن کی حیرتیں کتنی معصوم سی ہیں۔ لیاری کیا، پورے کراچی، سوات، وزیرستان اور پشاور میں دو اطراف سے فائرنگ ہوا کرتی ہیں، ایمبولنسوں میں لاشیں لے جائی جاتی ہیں اور محلے کے لمڈے آنکھیں میچتے ہوئے بیکری سے ناشتہ لینے جارہے ہوتے ہیں۔

کراچی میں قتل کی خبر تب تک خبر ہوتی ہی نہیں ہے جب تک ہلاکتیں 40 سے اوپر نہ ہوجائیں۔ پشاور میں اُس خود کش حملے کی خبر پانچ منٹ سے زیادہ نہیں چلتی تھی جس میں 15 سے کم افراد ہلاک ہوتے تھے۔  

ہمارے وکلا کی جھتہ گردی میں حیرت کا ایک بڑا پہلو ہے، مگر یہ دیکھ کر میں تو سہم گیا ہوں کہ اب ہم اس پر بھی حیرت زدہ نہیں ہیں۔ اُس پہلو کی طرف جاتے ہیں، مگر پہلے نورالحسین نامی اس شخص کو یاد کریں، جس کا وزن بہت بڑھ گیا تھا۔ نورالحسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر اپنے گاؤں سے لاہور کے ایک ہسپتال میں لایا گیا جہاں ڈاکٹر نے نورالحسین کی بلا معاوضہ سرجری کے لیے ہامی بھری۔

نورالحسین کامیاب سرجری ہوئی،اگلی صبح وہ ہنستا مسکراتا جسمانی ہمواریوں کے لیے پرامید آرہا تھا۔ اس دوران اس کی طبعیت بگڑی، تو ڈاکٹر چھٹی پر ہونے کے باوجود بھاگا دوڑا ہسپتال پہنچا۔ نورالحسین کی طبعیت جو وقتی طور پر بگڑی تھی، ڈاکٹرنے بروقت سنبھال لی۔

اگلے ہی روز اسی آئی سی یو میں ایک خاتون زندگی کی جنگ ہارگئی۔ چونکہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ زندگی خدا دیتا ہے اور موت ڈاکٹر دیتا ہے، چنانچہ خاتون کے لواحقین آئی سی یو پر چڑھ دوڑے۔ موقع پر موجود طبی اہلکار جان بچا کر دائیں بائیں ہوگئے۔ لواحقین نے آئی سی یو میں لگے ڈرپ سٹینڈز اٹھاکر طبی عملے پرتشدد کیا۔

وینٹی لیٹرز کی تاریں کھینچ لیں اور دروازوں کے شیشیے توڑ دیے۔ دنیا میں اگر کوئی ایسی مقدس جگہ ہوسکتی ہے کہ جہاں سانس بھی آہستہ لینا چاہیے، تو وہ آئی سی یو ہے۔ یہاں لوگوں کی سانسوں کو ڈاکٹروں نے کچی ڈوریوں سے باندھا ہوا ہوتا ہے۔ مگر خاتون کے لواحقین نے آئی سی یو میں تڑاپٹاخ کی اور شور شرابا کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کیا پاکستانی معاشرے میں روز ستم کے نئے پہلو دیکھنے والوں کے لیے اس میں حیرت کی کوئی بات ہے؟ ہر گز نہیں۔ حیرت کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ ان لواحقین نے وہ ڈوریاں بھی کھینچ لیں جن سے ڈاکٹروں نے اکھڑتی ہوئی سانسوں کو بہت مشکل سے باندھا تھا۔

اس پوری قیامت کے دوران وہ نورالحسین جان کی بازی ہار گیا، جس کی جسمانی دشواریاں ختم ہوگئی تھیں۔ ساتھ ایک خاتون بھی ہلاک ہوگئیں، جس کے پیٹ میں چھ ماہ کی ایک بچی سانسیں لے رہی تھی۔ اس طرح تین نفوس ایک جھٹکے میں زندگی کی جیتی ہوئی جنگ ہارگئے۔ اب حیرت کے ماروں کو تشدد کرنے والے لواحقین سے کہنا چاہیے کہ آپ کا یہ عقیدہ بسر چشم تسلیم کہ موت ڈاکٹر دیتا ہے۔ آپ کا یہ تصور بھی بجا کہ دروانِ علاج مر جانے والے کا حساب طبی عملے سے کرنا چاہیے۔ مگر آپ کے پاس اپنے اس کردار کے لیے آخر کیا جواز ہے کہ آپ نے اپنے عزیز کی موت کا حساب آئی سی یو میں پڑے مریضوں کی جان لے کر برابر کیا؟

یہ سوال اگر اہم ہوتا تو اب تک لواحقین سے کیا جاچکا ہوتا، مگر نہیں ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ ہماری حیرتوں کی سطح اب اتنی بلند ہوچکی ہے کہ وینٹی لیٹر کی تار کھنچ جانے پر بھی طبعیت پر کچھ ایسا فرق نہیں پڑتا۔

ابھی جب یہ کالم لکھ رہا ہوں، تین خبریں آچکی ہیں۔ پہلی، اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر تمام اقلیت بشمول احمدیوں کے، سب کے ساتھ رواداری کے ساتھ رہنے کی تلقین کی۔ یہ بات کچھ بزعمِ خوش عاشقانِ نبی کو بہت ناگوار گزری۔ خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو مردوں کے ایک ہجوم نے کشمنر آفس میں ہراساں کیا اور اپنی پسند کے جملے اس کے منہ میں رکھے۔ جو وہ کہنا نہیں چاہتی تھی، وہ کہنے پر مجبور ہوئی۔ وہ بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے اور ایک جوان کہہ رہا ہے، جب آئین نے کہہ دیا ہے کہ احمدی غیر مسلم ہیں تو ان کے ساتھ اتحاد اتفاق سے رہنے کی بات کیوں کی؟ اور یہ کہ خاتون کے سر پہ دوپٹہ نہیں ہے تو وہ اسلام کی بات کس خوشی سے کر رہی ہے؟

 دوسری خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایکسپو کا اہتمام کیا۔ سرائیکی سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے کسی ناگواری پر ایکسپو پر ہلہ بھول دیا۔ یہ طلبہ تنظیموں کے بیچ ہونے والا کوئی معمول کا ایسا تصادم نہیں تھا کہ جس پر حیرت نہ ہو۔ اس تصادم پر حیرت ہونی چاہیے تھی کہ اس میں بندوقیں نکلیں، گولیاں چلیں اور یہاں تک کہ جمعیت سے تعلق رکھنے والے ایک گلگتی کارکن کے سر میں براہ راست فائر مارا گیا۔ ایک طالب علم جان سے گزر گیا ہے اور 12 طالب علم اس وقت مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ لاہور کے بعد اب اسلامی یونیورسٹی کا کنٹرول بھی رینجرز نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔

تیسری خبر یہ ہے کہ عدالت نے وکلا اور ڈاکٹر صاحبان سے کہا ہے کہ دونوں گلے مل کر اپنے جھگڑے کو ابھی کے ابھی نمٹا لیں۔ لگتا یہ ہے کہ وکلا اور ڈاکٹر باہم گلے مل بھی لیں گے، کیونکہ باہمی تصادم ہمارا قومی مشغلہ ہے جس پر حیرت نہیں کی جاسکتی۔ حیرت صرف اس بات پر کی جا سکتی تھی کہ وکلا سے اُس اقدام کا حساب نہیں لیا گیا جس نے پلک جھپکتے میں شعبہ ایمرجنسی میں زندگی کی آس لگانے والے نفوس سے ان کی سانسیں چھین لیں۔

خاتون اسسٹنٹ کشمنر کو جب کمشنر کے دفتر میں ایک اوباش بچہ ہفوات سنا رہا تھا، پوری انتظامیہ خاموش کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں 12 گھنٹے گھمسان کا رن پڑا رہا، انتظامیہ ایک طرف کھڑی سگرٹ پھونکتی رہی۔ شعبہ ایمرجنسی میں بے موت مارے جانے والے مریضوں کے ورثا نے امید کی آخری نگاہ آج عدالت کی کارروائی پر ضرور ڈالی ہوگی۔ کیا یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہوگی کہ عدالت نے ضائع ہونے والی جانوں کا حساب مانگنے کی بجائے ہاتھیوں سے باہمی صلح کی عرضی گزار دی ہے؟

آگے آتی تھی حالِ دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ