بریگزٹ: بورس جانسن کا وعدہ پورا ہو پائے گا؟

برطانیہ کے عام انتخابات میں بورس جانسن کی ٹوری پارٹی کی فیصلہ کن کامیابی کے بعد بیلجیئم کو توقع ہے کہ برطانیہ وعدے کے مطابق 31 جنوری کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔

اگر برطانوی حکومت 31 دسمبر 2020 کی ڈیڈلائن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے تو اسے یکم جولائی تک فیصلہ کرنا ہو گا (اے ایف پی)

برطانیہ کے عام انتخابات میں بورس جانسن کی ٹوری پارٹی کی فیصلہ کن کامیابی کے بعد بیلجیئم کو توقع ہے کہ برطانیہ وعدے کے مطابق 31 جنوری کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔

بورس جانسن کی کامیابی کے چند گھنٹے بعد ہی برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس میں بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے ساتھ تجارت کے لیے یورپی ترجیحات پر غور کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کیا بورس جانسن برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت جاری رکھنے کے لیے فوری اور جامع معاہدے کا وعدہ پورا کریں گے یا وہ بریگزٹ کے بعد عبوری مدت میں توسیع کی درخواست پر مجبور ہوں گے۔

تیز یا سست؟

بورس جانسن کہتے ہیں وہ 2020 کے آخر تک عبوری مدت ختم ہونے تک یورپی یونین کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ کریں گے اور یونین سے عبوری مدت میں توسیع کے لیے نہیں کہیں گے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زیادہ تر ماہرین متفق ہے کہ برطانیہ کے شایان شان ایسا معاہدہ جو اسے یورپ کے قریب ترین شراکت داروں میں شامل کروا دے اس کے لیے اضافی وقت کی ضرورت ہوگی۔

بورس جانسن کی یقین دہائیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تجارتی معاہدے اتنی آسانی سے طے نہیں پا سکتے خاص طور پر اگر برطانیہ یورپی ملکوں کے ساتھ بہت مختلف قسم کے تعلقات رکھنا چاہتا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجارتی معاہدے کتنی دیر میں؟

یورپی پالیسی سینٹر میں چیف اکنامسٹ فیبیان زولیگ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ تیزی سے معاہدہ ’ایک بڑا مطالبہ‘ ہوگا جو معاہدے کے مقاصد کو بڑی حد تک محدود کر دے گا۔

اگر برطانوی حکومت 31 دسمبر 2020 کی ڈیڈلائن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے تو اسے یکم جولائی تک فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس تاریخ کا حکومت صرف ایک بار ہی ایک یا دو سال کے اضافی وقت کی درخواست کر سکتی ہے۔

زولیگ نے کہا ہے کہ ڈیڈلائن میں توسیع کے بغیر’شاید وہ بے حد بنیادی نوعیت کے معاملات بھی نہ سنبھال سکیں جس سے برطانیہ کو خدمات، ماہی پروری یا سپین کے لیے جبل الطارق جیسے نازک معاملات بھی شامل ہیں۔‘

حوالے کے طور پر دوسرے یورپی تجارتی مذاکرات کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن کے آغاز اور ان پر عمل درآمد میں بہت زیادہ وقت لگا۔

کینیڈا معاہدہ: 8.5 سال، جاپان: 6.5 سال، سنگاپور: نو سال، ویت نام: اب تک سات سال، جنوبی امریکہ کا تجارتی بلاک (مرکسور): اب تک 20 سال۔

چھ برس میں آپ کہاں پہنچیں گے؟

آئرلینڈ کے وزیراعظم لیووراڈکر نے کہا ہے کہ ’2020 کے آخر تک تجارتی معاہدہ کرنے کی خواہش بہت شدید ہے لیکن ہم اسے تمام تر کوشش کے بغیر پوری نہیں کر سکتے۔‘

سخت ڈیڈلائن تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کاروں کو یکم جولائی تک متاثر کن پیش رفت دکھانا ہو گی اور ترجمے اور قانون تحریر کرنے والوں کو کھلا وقت دینا ہوگا۔ یہ عمل ’صفائی‘ اور توثیق کے طور پر جانا جاتا ہے۔

زولیگ کہتے ہیں کہ تیز رفتار معاہدے کے لیے برطانیہ کو بنیادی معاملات پر بڑی مراعات کو قبول کرنا ہو گا۔

ٹیرف میں کمی ممکن ہے لیکن اس سے برطانیہ کو دوسرے معاملات پر مذاکرات کے لیے وقت نہیں ملے گا اور وہ یورپی یونین کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا۔

’نو ڈیل‘ کی واپسی

اگر بورس جانسن نے مذاکرات کی مدت میں توسیع سے انکار کر دیا تو معاہدے کے بغیر بریگزٹ ایک بار پھر سر پر منڈلانا شروع کر دے گی۔ برطانیہ کو یورپ کے ساتھ تجارتی روابط کو خطرے کا اچانک سامنا ہو گا جس سے اس کی معیشت کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔

زولیگ نے کہا کہ مذاکرات کے آغاز پر ابتدائی صورت حال نو ڈیل اور برطانیہ کی حیثیت ایک تیسرے ملک والی ہو گی۔ یہ صورت حال برطانیہ کے لیے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

تیسرے ملک کی حیثیت سے برطانیہ کے سامنے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی طے شدہ شرائط ہوں گی۔

اہم مصنوعات پر ٹیرف زیادہ ہو گا۔ مثال کے طور پر اس سے برطانیہ میں کاریں بنانے کا کاروبار اور دوسری صنعتی پیداوار جس کا انحصار سمندر پار سے آنے والے پرزوں پر ہے تباہ ہو جائیں گے۔

برطانیہ کے داخلی راستوں پر بڑی تعداد میں سرحدی محافظ موجود ہوں گے جو ملک میں داخل ہونے والے نظر رکھنے اور کاغذی کارروائی پر مجبور ہوں گے۔

یورپی یونین کی شرائط

جمعے کے سربراہی اجلاس کے غیر حتمی نتائج میں یورپی رہنماؤں نے یورپی یونین کے مذاکرات کار مشیل بارنیئر کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے تجارتی معاہدے کی شرائط تیار کریں۔

معاہدے کی شرائط طے کرنا ضروری ہے کیونکہ یورپی یونین کی تجارتی پالیسی ایک جیسی ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد جلد ہی 27 ہونے والی ہے۔

مذاکرات یورپی کمیشن کرے گا جسے پہلے یونین کے رکن ممالک کے مینڈیٹ کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک کی رائے اور ترجیحات میں بڑا اختلاف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس اور آئرلینڈ کاشت کاری کے لیے بیلجیئم کو زمین دینے کا اختیار دینے سے انکار کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا