پولیو سے متاثر لیکن پھر بھی اس کے خلاف سرگرم 'ڈان'

ڈاکٹر نادیہ سے جب پوچھا کہ وہ اگلے دس برس میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں، ’اگلے دس سال میں میں تو بہت آگے جانا چاہوں گی اگر کسی نے جانے دیا تو۔‘

راوی ٹاؤن لاہور کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے دفتر میں ایک خاتون چہرے پر ہر لمحہ مسکراہٹ لیے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ان کے کمرے میں ہر وقت کسی نہ کسی کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بڑے تحمل سے بڑے اطمینانن سے لوگوں کی یا اپنے ماتحتوں کی بات سننا ان کا وتیرہ ہے۔ جن کا نام ہے ڈاکٹر نادیہ عطا۔

ویسے تو ڈاکٹر نادیہ اپنے علاقے میں بیماری کی طرف سے الرٹ رہتی ہیں مگر اس وقت پولیو پر ان کی خاص نظر ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود اس تکلیف سے گزر چکی ہیں جو پولیو ہو جانے کے بعد ایک بچہ ساری عمر اٹھاتا ہے۔

ڈاکٹر نادیہ عطا نو ماہ کی تھیں جب انہیں پولیو وائرس نے اٹیک کیا اور ان کی بائیں ٹانگ کو معذور کر دیا۔ ڈاکٹر نادیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچپن میں ان کو پولیو سے بچاؤ کے مکمل قطرے نہیں پلائے گئے تھے اور دوسری وجہ انہوں نے اپنی ماں کی بجائے گائے، بھینس یا کھلا ڈبے کا دودھ ہیا جس کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف ان کے جسم میں قوت مدافعت کم تھی۔

ڈاکٹر نادیہ کہتی ہیں کہ زندگی کے پہلے چار پانچ برس انہوں نے رینگ کر گزارے اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پاتی تھیں اسی لیے انہوں نے سکول بھی سات برس کی عمر میں شروع کیا۔

’جب بہت چھوٹی تھی تب تو زیادہ محسوس نہیں ہوا۔ میری زندگی میں مشکل تب شروع ہوئی جب میں ٹین ایج میں داخل ہوئی۔‘

’مجھے اللہ نے ایک چیز سے بہت نوازا ہے کہ اگر میں جسمانی طور پر معذور تھی تو میرا دماغ بہت چلتا تھا اس کو پھر میں نے پورا استعمال کیا۔ میں اپنے سکول میں بہت ذہین اور تیز طالب علم تھی۔ سکول میں مجھے سب ڈان کہہ کر بلاتے تھے اور جو جونئیرز تھے وہ ڈان آپی کہہ کر بلاتے تھے جبکہ میرے کلاس فیلوز مجھے نادیہ ڈان کہہ کر بلاتے تھے۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میں نے ہمیشہ لڑکوں کو اپنے مقابلے میں رکھا۔ ہاں ان کے ساتھ مقابلہ کروں گی تو زندگی میں شاید لڑکیوں سے زیادہ طاقتور ہو پاؤں گی اور پھر اپنی معذوری کو بھی میں نے اپنے ذہن میں رکھا۔‘

ڈاکٹر نادیہ کی چھوتی بہن صبا جو اس وقت سویڈن میں رہتی ہیں، سکول میں ان کی باڈی گارڈ ہوا کرتی تھیں۔ ’میرے لیے لڑنا، کسی نے اگر مجھے مارا ہے تو میں کسی کے پیچھے بھاگ کر اسے نہیں مار سکتی تھی تو وہ میرے وہ سارے کام کرتی تھی۔ وہ خوب کٹ لگایا کرتی تھی انہیں جو جسمانی طور پر مجھے تکلیف پہنچاتے تھے ذہنی طور پر میں خود حساب لیتی تھی کیونکہ میں دوسروں کے لیے بہت بڑی ذہنی کوفت تھی۔‘

جب سکول ختم ہوا تو پھر کالج شروع ہوا تو بچپن سے ہی ڈاکٹر نادیہ کی نانی کو خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں جسے ڈاکٹر نادیہ نے پورا کر کے دکھایا۔ ’حالانکہ میں اداکارہ بننا چاہتی تھی جس کی اجازت میرا خاندان نہیں دیتا۔ کالج میں ڈرامیٹک کلب کی صدر رہی ہوں۔ میں نے جب بھی سٹیج پر کارکردگی دکھائی تو میرا پہلا انعام ہوتا تھا کیونکہ مجھے دوسرے نمبر پر آنا ہی نہیں تھا کبھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایم بی بی ایس کے بعد نادیہ نے جنرل ہسپتال سے اپنی ہاؤس جاب شروع کی، پبلک سروس کمشن کا امتحان دیا اور حکومتی سیکٹر میں آگئیں۔ ڈاکٹر نادیہ کی پہلی پوسٹنگ شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کے ایک بیسک ہیلتھ یونٹ میں ہوئی۔

ان کے سٹاف نے ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے انہیں پولیو مہم کے دوران یونین کونسل مینجمنٹ آفیسر [یو سی ایم او] کے طور پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ’جب میرا نام اس پوسٹ کے لیے گیا تو وہاں کے ڈی ڈی او نے مجھے رجیکٹ کر دیا یہ کہہ کر کہ میڈم تو معذور ہیں وہ کیسے کریں گی، وہ کیسے گلی گلی گھومیں گی، وہ کیسے ٹیموں کو چیک کریں گی؟‘

ڈاکٹر نادیہ نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور ڈٹ کر کام کیا۔ یو سی ایم او تو نہیں لگیں مگر ان کی بہترین کارکردگی اور محنت کو دیکھتے ہوئے چھ ماہ قبل ڈاکٹر نادیہ عطا کو ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے لاہور کے راوی ٹاؤن میں ڈی ڈی ایچ او لگا دیا گیا۔

’میں نے فیلڈ میں کام کیا، میں نے ٹیمز کو چیک کیا، ہسپتالوں کو دن رات چیک کیا۔ اگر مجھے معلوم ہوا کہ رات کے تین بجے کسی ہسپتال میں کوئی مسئلہ ہوا ہے تو میں وہاں پہنچی۔‘

ڈاکٹر نادیہ کی ڈیڑھ برس پہلے شادی ہوئی، ان کے شوہر رانا طاہر بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں اور آدھی رات کو اگر ہسپتال جانا پڑے انسپیکشن کے لیے تو فوراً ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ شادی کا فیصلہ نادیہ کے لیے آسان نہیں تھا مگر وہ خوش ہیں کہ انہیں ایک سمجھدار اور محبت کرنے والے شوہر ملے جو ان کی جسمانی معذوری پر افسوس نہیں بلکہ اس معذوری کے ساتھ ان کی موجودہ شناخت پر فخر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نادیہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے زندگی کے حالات مثبت ہوتے چلے گئے کیونکہ وہ محنتی تھیں۔ ’میرا نام اچھے افسروں میں آنے لگا اور پھر ان سب لوگوں نے میرے ماتحت کام کیا جو کہتے تھے کہ میں یو سی ایم او نہیں لگ سکتی۔‘

ڈاکٹر نادیہ اپنے علاقہ کو پولیو سے پاک کرنے کی لیے دن رات کوشاں ہیں، پولیو کے خلاف شروع ہونے والی اس مہم میں بھی ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

’ذاتی طور پر میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ پولیو کسی کو نہ ہو، یہ بہت تکلیف دہ ہے اتنا کہ اگر میں کوئی عام لڑکی ہوتی تو میں اس بیماری کے ساتھ ذہنی مریضہ ہو جاتی۔  یہ آپ کو اندر ہی اندر سے کھا جاتی ہے۔ اور پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میں اس معاشرے میں رہ رہی ہوں جہاں پر کسی کے کپڑے میں کوئی خرابی ہو تو اسے 'بی پئیر' کہا جاتا اور یہاں پر وہ لوگ ہیں جو ہلکا سا سڑا ہوا پھل بھی نہیں لیتے وہاں پر وہ ایک نا مکمل انسان کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ تھا میرے پاس الفاظ نہیں ہیں بیان کرنے کے لیے۔‘

انھوں نے پولیو کے حوالے سے مزید کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ پولیو ختم ہو جانا چاہیے۔ میری ان والدین سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکسینیٹ کروائیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے یہ لاعلاج ہے۔‘

ڈاکٹر نادیہ سے جب پوچھا کہ وہ اگلے دس برس میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں، ’اگلے دس سال میں میں تو بہت آگے جانا چاہوں گی اگر کسی نے جانے دیا تو۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین