نیب سے عزت نفس مجروح ہونے سے بچائیں: سرکاری افسران کی اپیل

خیبر پختونخوا کی بیوریوکریسی نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیب کے قوانین میں اصلاحات لا کر سرکاری افسران کی عزت نفس مجروح کرنے سے بچائیں۔

کریڈٹ: قومی احتساب بیورو

خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی نے وزیر اعظم عمران کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی احتساب بیورو(نیب) کے قوانین میں اصلاحات لا کر حکومت کے معزز سرکاری افسران کی عزت نفس مجروح کرنے سے بچائیں۔

نیب پر تنقید اس وقت شروع ہو گئی تھی جب انہوں نے خیبر پختنوخوا آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کو بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔

وزیر اعظم عمران خان بھی اس گرفتاری ناخوش نظر آئے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں اس بارے میں لکھا کہ چیئرمین نیب ان لوگوں کے خلاف کاروائی کریں جو عبدالصمد کے گرفتاری کی اس ’شرمناک‘ کارر وائی میں ملوث تھے۔

ڈاکٹر عبدااصمد اس سے پہلے ہزارہ یونیورسٹی میں گریڈ 19 میں ملازم تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس کو خیبر پختونخوا آرکیا لوجی ڈیپارٹمنٹ کا گریڈ 18 میں ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔

عمران خان کی ٹویٹ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دیگر وزرا اور کارکنان نے گرفتار ملازم کے حمایت میں بولنا شروع کر دیا۔

نیب چئیر مین نے عمران خان کی ٹویٹ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر نیب کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ گرفتار آفیسر کو اسلام آباد دفتر میں ثبوتوں سمیت پیش کریں۔ نیب کا موقف ہے کہ گرفتار آفیسر پر اپنے محکمے میں غیر قانونی بھرتیوں اور کچھ قیمیتی نوادرات کا باہر ملک میں غیر قانونی طریقے سے برامد کرنے کا الزام ہے۔ 

کے پی بیوریو کریسی کیا چاہتی ہے؟

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن افسران کی ایسوسی ایشن نے عمران خان کو خط میں لکھا ہے کہ معزز افسران کو نیب کی جانب سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

خط میں عندیہ دیا گیا ہے کہ کچھ معاملات یعنی ادارے میں لوئر گریڈ کی بھرتیاں، یا کسی چیز کے لیے این او سی یا دیگر معمولی نوعیت کے معاملات کو پہلے سے ’ایفیشنسی اور ڈسپلنری‘ قوانین کے اندر حل کیے جا رہے ہیں اور نیب یا اینٹی کرپشن کا اس قسم کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ وزیر عظم اس مسئلے پر سنجید گی سے غور کر کے احتساب بیورو میں اصلاحات لانے کے لیے کوشش شروع کریں۔

افسران کی انکوائری سے قبل گرفتاری کے بارے میں خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر ایک ملازم احتساب بیورو کی انکوائری میں مدد کر رہے ہیں اور ذاتی طور پر پیش بھی ہو رہے ہیں اور ساتھ میں درکار دستاویزات بھی نیب کو فراہم کر رہے ہیں تو اس کے بعد کسی افسر کی گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔

’انکوائری سے قبل کسی بھی ملازم کی گرفتاری سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور اس کا کیریر داغدار بن جاتا ہے۔گرفتاری اس وقت ہونی چاہیے جب کسی بھی افسر پر الزامات ثابت ہو جائیں۔‘

میڈیا کے حوالے سے خط میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی انکوائری اور تفتیش کے بارے میں نیب کو میڈیا میں اس کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ عام لوگ جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود پھر اسی افسر کو مجرم گردانتے ہیں اور اس سے شفاف تحقیقات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی افسر پر الزام ثابت نہ ہو جائے تو نیب کو پھر اس افسر سے پبلک میں معافی مانگنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی کیس میں ملزم پر خود کو بےگناہ ثابت کرنے کا بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ نیب اس کے خلاف ثبوت پیش کرے۔

پی ٹی آئی کا نیب کی گرفتاریوں پر بدلتا موقف

انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ عمران خان عبدالصمد کی گرفتاری کے بعد نیب میں اصلاحات لانے کے بارے میں سوچ رہے ہے۔ تاہم اس سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت کی نیب کی طرف سے دیگر گرفتاریوں میں ایسا رویہ سامنے نہیں آیا تھا۔

پی ٹی آئی نے نیب کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت مختلف ہائی پرفائل گرفتاریوں پر یہی موقف اختیار کیا ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور حکومت کا اس گرفتاریوں کے ساتھ کوئی کام نہیں ہے۔

 ماہرین کیا اصلاحات تجویز کرتے ہیں؟

نیب عدالتوں کی جانب سے ملزمان کو ریمانڈ پر بھیجنے کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل فہیم ولی کا کہنا ہے کہ ریمانڈ کے دنوں کو کم کرنا چاہیے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اگر ایک ملزم عدالت کو یہ سکیورٹی فراہم کرے کہ وہ عدالتی سماعت کے لیے آئیں گے تو ان کو ضمانت پر رہا کر دینا چاہیے۔

’کسی بھی ملزم کو ضمانت نہ دینے پر پابندی ختم کرنی چاہیے جبکہ ساتھ میں پلی بارگین اور رضامندی سے کرپشن کے پیسے واپس کرنےپر زور بھی دینا چاہیے۔‘

تفتیش سے پہلے گرفتاری کے بارے میں محمد فہیم نے بتایا کہ ہر کیس میں ملزم کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں گرفتاری ضروری ہوتی ہے جب تفتیشی ٹیم عدالت کو اس پر قائل کر دے کہ ملزم سے کچھ ایسے سوالات اور تفتیش ضروری ہے جس کے لیے ان کو گرفتار کرنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ اگر کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور عدالت کی جانب سے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جائے تو اس وارنٹ کو پبلک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے ملزم کو پتہ چل جائے اور وہ روپوش ہو جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان