ایک ملک اور ایک قانون

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسا ہی فیصلہ سابق فوجی آمر ایوب خان کے لیے بھی آتا تو نہ یحیی خان اقتدار پر شب خون مارنے کی جرات کرتا اور نہ ہی پاکستان دو لخت ہوتا۔

جہاں تک غداری کیس میں فیصلے کی بات ہے تو پرویز مشرف نے چھ سال میں دو بار ہی کورٹ میں حاضری دی اور خراب صحت کو بنیاد بنا کر دبئی میں جا بیھٹے (اے ایف پی)

کل کے فیصلے سے پہلے تک یہی سنتے اور دیکھتے آئے تھے کہ وطن عزیز میں کمزور کے لیے الگ قانون ہے اور طاقت ور کے لیے الگ لیکن کل کے فیصلے سے امید کی ایک نئی کرن روشن ہوئی ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ایک ملک میں دو قانون ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

سابق صدر پرویز مشرف کو آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی پر موت کا فیصلہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ اس کے بعد اب کوئی بھی ایسا کرنے سے پہلے دس مرتبہ ضرور سوچے گا ۔

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسا ہی فیصلہ سابق فوجی آمر ایوب خان کے لیے بھی آتا تو نہ یحیی خان اقتدار پر شب خون مارنے کی جرات کرتا اور نہ ہی پاکستان دولخت ہوتا کہ جس کے قیام کے لیے ہم میں سے بہت سے پاکستانیوں کے بزرگوں نے نہ صرف اپنے گھروں کو خیر آباد کہا بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے ایک طرف بھارت ہے کہ جہاں پچھلے ستر سالوں میں کسی ایک جرنیل کو جرات نہ ہوئی کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے تو دوسری طرف ہم لوگ ہیں کہ بچے تھے تو تب ضیاالحق کا دور تھا اور جوان ہوۓ تو مشرف برسر اقتدار تھے۔

بہت سے لوگ پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا پر آہ و بکا کر رہے ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ 2001 سے پہلے تک پاکستان میں دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں تھا اور یہ مشرف ہی تھے کہ جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا لفظ متعارف کروایا۔ امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، ہزاروں پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسی دوران پاکستانی طالبان وجود میں آئے۔ ملک کے کونے کونے میں خود حملہ آوروں نے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا، امن و امان کی ابتر صورت حال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں نے نہ صر ف اپنا سرمایہ نکالا بلکہ پاکستانی سرمایہ کار بھی پڑوسی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ معیشت ہی نہیں سیاحت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور شاید ہی کوئی دن گزرتا کہ جب پاکستان میں دھماکہ نہ ہوتا ہو۔

یہی نہیں بلکہ ججوں کو ان کے گھروں پر نظر بند کیا گیا، بزرگ سیاست دان اکبر بگٹی کا قتل ہوا، لال مسجد کے معاملے کو طاقت کے زور پر نمٹایا گیا، بہت سے بے گناہ پاکستانیوں کو شک کی بنیاد پر غائب کر دیا گیا اور آئین پاکستان کو معطل کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ آئین پاکستان کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکرے کی مانند ہے کہ جسے کوڑے کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے۔

اپنے دور میں پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک تھے انھوں نے وہ تمام فیصلے خود سے کیے کہ جن کو کرنے کے لیے ایک جمہوری حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے منظوری چاہیے ہوتی ہے۔

جہاں تک غداری کیس میں فیصلے کی بات ہے تو پرویز مشرف نے چھ سال میں دو بار ہی کورٹ میں حاضری دی اور خراب صحت کو بنیاد بنا کر دبئی جا بیھٹے۔ کورٹ نے ان کو بار بار بلایا لیکن انہوں نے کورٹ کی ایک نہ سنی اور اب کورٹ کے فیصلے پر اعتراضات کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ مشرف کو ٹھیک سے سنا نہیں گیا۔

اس ساری صورت حال میں فوج کے ترجمان کا بیان کسی بھی صورت حوصلہ افزا نہیں ہے کیوں کہ قانون سے کوئی بھی مبرا نہیں ہو سکتا اور رہی بات پرویز مشرف کی تو وہ ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں جب کہ اشخاص سے زیادہ اداروں کی اہمیت ہونی چاہیے۔

ورنہ عوام الناس کا اداروں سے اعتبار اٹھ جائے گا اور ایسی صورت میں ملک میں انارکی پھیلے کا اندیشہ ہے۔

---------------------------------------------------------------------

یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ