آف لائن  کشمیر واپس  پتھر کے دور میں پہنچ گیا

’پہلے میں اپنے کئی کام موبائل انٹرنیٹ سے نمٹا لیتا تھا، لیکن اب مجھے اپنا فون بل بھرنے کے لیے ہر مرتبہ تقریباً ایک گھنٹہ قطار میں لگنا پڑتا ہے۔‘

سرینگر میں نوجوان انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دور دراز علاقوں میں عوام اگست سے  آف لائن (یعنی انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی سہولت سے محروم) ہیں۔

 وہ حکومت کے قائم کردہ ’انٹرنیٹ کیوسکس‘ پر گھنٹوں طویل قطار میں  لگ کر اپنے بل ادا کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنو ں کے مطابق بھارت انٹرنیٹ پر پابندی لگانے میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ اب بھارت کے بڑے شہروں میں شہریت کے متنازع  قانون کے خلاف بڑھتے احتجاج کے سبب وہاں کے شہریوں کو بھی کشمیریوں جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
گذشتہ دو ہفتوں سے ملک بھر میں جاری پرتشدد مظاہروں نے نمٹنے کے لیے حکام نے ایک مرتبہ پھرانٹرنیٹ کی بندش کا سہارا لیتے ہوئے  ملک کے بڑے حصے میں موبائل انٹرنیٹ مکمل بند جبکہ لینڈ لائن سروس جزوی معطل کر رکھی ہے۔
ادھر کشمیر میں اگست سے نافذ سکیورٹی لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کسی حد تک موبائل سروس بحال ہوئی ہے لیکن اب بھی انٹرنیٹ  اور سینکڑوں سیاسی رہنما اور عام کشمیری بند ہیں۔
کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں محمد عرفان  ایک سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے بڑے ہال میں طویل قطار میں کھڑے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ’پہلے میں یہ کام اپنے فارغ وقت یا پھر موبائل انٹرنیٹ سے نمٹا لیتا تھا، لیکن اب مجھے اپنا فون بل بھرنے کے لیے  ہر مرتبہ تقریباً ایک گھنٹہ قطار میں لگنا پڑتا ہے۔‘
مقامی حکام نے کاروبار اور عوام کی مسلسل شکایات کے بعد کئی مقامات پر انٹرنیٹ کیوسک کھولے ہیں۔ 70 لاکھ کی آبادی پر مشتمل خطے میں درجن بھر ایسے مراکز ہیں ، جہاں عوام محض 15 سے 10 منٹ تک کمپیوٹر استعمال کر سکتے ہیں۔
نئی دہلی انٹرنیٹ بند کرنے کا جواز یہ دیتا ہے کہ کہیں عسکریت پسند اس کا استعمال نہ کریں، لیکن عام کشمیریوں کے کیوسک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لوگوں کو کیوسک کی سہولت استعمال کرتے وقت شناختی کارڈ دکھانے کے علاوہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ نیٹ کیوں استعمال کر رہے ہیں اور کون سی ویب سائٹس کھولنا چاہتے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا کی سائٹس استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔

کیوسک میں حکام ہر وقت گھومتے پھرتے سکرینز پر نظر رکھتے ہیں اور مقررہ وقت پورا ہونے پر لوگوں کو فوراً چلے جانے کا کہتے ہیں۔ عوام کو خدشہ ہے کہ سافٹ ویئر کے ذریعے ان کی انٹرنیٹ پر سرگرمیاں نوٹ کی جا تی ہیں۔
سخت سردی میں ایک سو کلو میٹر سے زائد  سفر کر کے سرینگر کے کیوسک میں موجود طالب علم مبشر نے بتایا ’اس وقت مجھے گھر پر امتحان کی تیاری میں مصروف ہونا چاہیے تھا لیکن میں یہاں صرف آن لائن دستیاب اپنا رجسٹریشن کارڈ حاصل کرنے کے لیے منتظر ہوں۔‘
کشمیر میں حکام نے اکتوبر میں صرف موبائل کمپنیوں سے معاہدہ شدہ موبائل فونز کی سروس کالز کے لیے بحال کی تھی۔
ان فونز پر ڈیٹا سروس کی سہولت نہیں اور واٹس ایپ اپنے قانون کے تحت غیر متحرک اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر رہا ہے۔
حتٰی کہ سول سرونٹس کو سرکاری امور کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی پیشگی اجازت طلب کرنا پڑتی ہے۔
کچھ کاروباروں مثلاً لگژری ہوٹلز اور آئی ٹی کمپنیوں کے لیے فکسڈ لائن کیبل انٹرنیٹ سروس  بحال ہے۔ تاہم انہیں یقینی بنانا پڑتا ہے کہ انٹرنیٹ محض بزنس کے لیے استعمال کیا جائے گا نہ کہ کسی سیاسی یا سوشل مقصد کے لیے۔
ایک سافٹ ویئر فرم کے مالک نے نام نہ  ظاہر کرنے  کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ’ہمیں سکیورٹی فورسز کی اس شرط کو ماننا پڑتا ہے کہ وہ کبھی بھی ہمارے انفرا سٹرکچر کا معائنہ کر سکتے ہیں۔‘
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پورے خطے میں ایک سروے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ پانچ اگست کو شٹ ڈاؤن کے بعد مقامی معیشت کو 1.7 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔
چیمبر کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں، اور ان میں سے آدھی تعداد شعبہ سیاحت سے ہے۔
آن لائن رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شعبہ صحت بھی متاثر ہو رہا ہے کیونکہ مریض اپنے معالجوں تک آن لائن رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا