آج ان کی عید ہے جو آپ کی عید کو عید بناتے ہیں

اخلاقی طور پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی ان کی عید کو ان کے لیے ویسے ہی آرام دہ بنائیں جیسے یہ ہماری عید کو ہمارے لیے بناتے ہیں۔

اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں کرسمس  کی تیاریاں (اے ایف پی)

آج ان کی عید ہے جو ہماری عید کو ہمارے لیے عید بناتے ہیں۔ سوچیں یہ لوگ ہماری عید پر چھٹی کر لیں تو ہمارا کیا حال ہو؟

اس صورت حال کا زیادہ بہتر اندازہ وہ لگا سکتے ہیں جن کے گھر صفائی ستھرائی کا کام مسیحی برادری کا کوئی فرد کرتا ہے۔ یہ لوگ عید کے روز بھی کام پر آتے ہیں اور معمول سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ آپ صبح اٹھتے ہیں اور عید کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس دوران یہ آپ کا پورا گھر سنبھال لیتے ہیں۔ آپ جب تک نماز سے فارغ ہوتے ہیں، آپ کا گھر صاف ستھرا چمک رہا ہوتا ہے۔

گلی میں جمعدار بھی اسی معمول کے مطابق آتے ہیں اور ہر گھر سے کوڑا اٹھاتے ہیں۔ سوچیں کسی عید یہ لوگ اپنے کام پر نہ نکلیں۔ آپ کا پورا دن کام میں گزر جائے گا اور کوڑے سے بھری ٹوکریاں الگ پریشان کریں گی۔ عید الفطر تو چلو کسی طرح گزر ہی جائے گی لیکن کسی بقر عید یہ لوگ چھٹی پر چلے جائیں تو ہماری گلیوں کا کیا حال ہو گا؟

آج ان کی عید ہے۔ یہ آج تیار ہوں گے، گرجا گھر جائیں گے، اپنے رشتے داروں سے ملیں گے، شام میں بچوں کو بہلانے کسی پارک، ریستوران یا مال بھی چلے جائیں گے۔ حکومت نے گرجا گھروں، پارک اور دیگر عوامی جگہوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے تاکہ یہ لوگ بغیر کسی ڈر اور خوف کے کرسمس کی خوشیاں منا سکیں۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ سماجی سطح پر ان کے اس دن کو ان کے لیے یادگار بنائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افسوس ابھی تک ہم نے اپنے ملک میں اقلیتوں کو وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق ہے۔ اقلیتیں نچلے درجے کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسی نوکریوں کے ساتھ خاص طور پر غیر مسلم لکھا جاتا ہے تاکہ انہیں ان کی حیثیت معلوم رہے۔

ہمارے گھروں میں ایسے ملازمین کے لیے ایک الگ پلیٹ، کپ اور گلاس رکھا ہوتا ہے۔ اگر کبھی انہیں کچھ کھانے کو دینا ہو تو ان علیحدہ برتنوں میں دیا جاتا ہے۔ گھر کے سب سے چھوٹے بچے کو بھی سمجھایا جاتا ہے کہ ماسی پانی مانگے تو فلاں گلاس میں دینا ہے۔

ہم اپنی نسلوں کو نفرت سکھاتے ہیں، دوسرے مذاہب اور فقہوں سے نفرت۔ وہ اسی نفرت کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی نفرت سکھاتے ہیں۔ کبھی سوچیں تو سہی کہ اپنے جیسے دکھنے والے انسانوں سے ہم اتنی نفرت کیوں کر رہے ہیں؟ 

یہ بھی ہم جیسے انسان ہیں۔ ان کے پاس بھی ویسا ہی شناختی کارڈ ہے جیسا ہم نے اپنے بٹوے میں رکھا ہوا ہے۔ ان کے اندر بھی وہی اے، بی اور او والا خون ہے جو ہمارے اندر دوڑتا ہے۔ ان کا خالق بھی وہی ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے پھر ہم ان سے برتر اور یہ ہم سے نیچ کیسے ہو گئے؟

جس دن پورے ملک کو چھٹی ہوتی ہے، یہ اس دن چھٹی نہیں مناتے تاکہ ہماری عید کو ہمارے لیے خوشیوں بھرا دن بنا سکیں۔ اخلاقی طور پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی ان کی عید کو ان کے لیے ویسے ہی آرام دہ بنائیں جیسے یہ ہماری عید کو ہمارے لیے بناتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو ان کے گھر صفائی کرنے نہیں جانا بس اپنا دل تھوڑا سا بڑا کرنا ہے۔ ان کے چھٹی یا عیدی مانگنے پر ناک بھوں نہ چڑھائیں بلکہ کھلے دن سے انہیں کچھ دن کی چھٹی اور چند سو روپے بطور عیدی دے دیں۔ ان کے گھر سے آیا کیک کھا لیں اور ہو سکے تو کچھ دیر کے لے لیے ان کے گھر بھی ہو آئیں اور کرسمس ٹری کے ساتھ تصویر بھی بنا لیں۔ اٹھتے ہوئے ’میری کرسمس‘ بھی بول دیں۔ اسی میں ان کی عید ہو جائے گی۔ یہ پورا سال اپنے رشتے داروں کو آپ کے اس وِزٹ کا بتاتے رہیں گے۔ اور آپ کا کیا جائے گا؟ بس آدھا گھنٹہ؟

اتنی خوشی تو آپ انہیں دے ہی سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ