کنٹریکٹر کی ہلاکت کے بعد عراق، شام میں امریکی جوابی کارروائی

پینٹاگون کے مطابق ایران کے حامی عسکریت پسند گروپ کتائب حزب اللہ کے خلاف کارروائیاں جمعے کو 30 سے زائد راکٹ حملوں کا ردعمل ہے۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے مستقبل میں  ایران یا دوسرے جنگجو گروپوں کے   خلاف مزید  فضائی حملے خارج از امکان   قرار نہیں دیے (اے ایف پی)

امریکہ نے عراق میں ایران کے حامی عسکریت پسند گروپ کتائب حزب اللہ کے خلاف فضائی حملوں میں 19 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔

پینٹاگون نے اتوار کو بتایا کہ اس نے مغربی عراق میں مذکورہ گروپ سے جڑے اسلحہ ڈپو اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنانے کے علاوہ مشرقی شام میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔

پینٹاگون کے مطابق یہ کارروائیاں جمعے کو 30 سے زائد راکٹ حملوں کا ردعمل ہے۔

بغداد کے شمال میں کرکک میں قائم عراقی فوجی اڈے پر جمعے کو ہونے والے راکٹ حملے میں ایک امریکی سویلین کنٹریکٹر ہلاک جبکہ چار امریکی سروس رکن اور عراقی سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’ایران کی ایسی کارروائیوں کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا جو امریکیوں کو خطرے میں ڈالیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے فضائی حملوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ایران یا دوسرے جنگجو گروپوں کے برے رویے سے نمٹنے کے لیے مزید حملے خارج از امکان نہیں۔‘

ایسپر نے مزید کہا کہ وہ اور پومپیو ان دنوں فلوریڈا میں کرسمس چھٹیاں منانے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر بریفنگ دینے گئے تھے۔

اس سے پہلے پینٹاگون نے کہا تھا کہ کتائب حزب اللہ کے ایران کی قدس فورس کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور وہ ایران سے بارہا مہلک مدد حاصل کرتا آیا ہے، جو اس مرتبہ اتحادی فورسز کے خلاف استعمال کی گئی۔

عراق کے رخصت ہونے والے وزیر اعظم عبدالمہدی کے عسکری ترجمان نے امریکی فضائی حملے کو ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔

اسی طرح ایک اور طاقت ور ایرانی دھڑے عصائب اھل الحق نے، جس کے رہنماؤں پر حال ہی میں امریکی پابندیاں لگیں، امریکیوں کے عراق سے واپس جانے کا مطالبہ کیا۔

دھڑے نے ایک بیان میں کہا: ’امریکی فوج کی موجودگی عراقی ریاست پر بوجھ بن چکی ہے اور یہ ہماری فورسز کے لیےایک خطرہ ہے۔‘

گذشتہ سال واشنگٹن کی جانب سے یک طرفہ طور پر تہران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور دونوں ملکوں کے قریب سمجھے جانے والا عراق ان کے بیچ پھنس گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا