انیس، بیس کا فرق

تمام تر خدشات کے باوجود عرض تو یہ ہی کی جا سکتی ہے کہ 2019 جب رخصت ہو رہا ہے تو پرانی روش کو بھی جانیں دیں اور ہندسے بدلنے سے آگے بڑھنے کے عمل کا بھی آغاز کر دیں ورنہ یہ خیال ضرور رکھیں آئندہ سال انیس نہیں، بیس ہے۔

سارا سال قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا، کسی کو حالات کے یکسر بدلنے کا یقین تھا تو کسی کو تبدیلی کے آثار تک نہیں دکھے (پکسابے)

آج کا دن اس سال کو بھی ہم سے جدا تو کر گیا لیکن آئندہ سال کے لیے کیا پیغام چھوڑ کر جا رہا ہے یہ مت پوچھیں کیوں کہ فہرست بہت طویل ہے۔ جب 2019 کا آغاز ہوا تو یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ سہانے سپنے جنہیں ہم صرف خواب ہی سمجھتے تھے اُن کی تعبیر کی شاید کوئی جھلک نظر آئے گی لیکن پھر وہی ہوا سال بھی گیا اور وہ خواب بھی۔

سارا سال قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا، کسی کو حالات کے یکسر بدلنے کا یقین تھا تو کسی کو تبدیلی کے آثار تک نہیں دکھے اور ایسے میں غیر یقینی نے سب کچھ ایسے جکڑ لیا ہے کہ منظر ہی دھندلا نظر آنے لگا۔

معاشی چیلنج صرف حکومت ہی کے لیے نہیں بلکہ اس دیس میں بسنے والے ہر شخص کے لیے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب اس کے تذکرے ہی سے دل بیٹھنے لگتا ہے۔ لیکن حکومت کے وزرا نے اگر اس سال کوئی بہت بڑا کمال کیا تو وہ یہ کہ لوگوں کی ہمت نہ ٹوٹنے دی، گرتی معیشت اور بگڑتے حالات کے باوجود دن کی روشنی میں خواب دکھاتے چلے گئے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ بعض حکومتی شخصیات کا تذکرہ چھڑتے ہی سنجیدہ لوگوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ اور پھر بے ساختہ قہقے بکھرنے لگتے۔

تحریک انصاف کی حکومت جو 2019 کے آغاز کے بعد بہت مضبوط لگ رہی تھی اور یہ تاثر بہت قوی تھا کہ جب تمام قوتیں ہی اس کی پشت پر ہیں تو کیوں کر کوئی اس کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے گا۔

لیکن اب آنکھیں میلی ہو رہی ہیں اور چاہتے یا نا چاہتے ہوئے بھی اقتدار کے ایوان کی جانب دیکھیں گی بھی۔

اکتوبر میں اسلام آباد کی جانب جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے مارچ کا اعلان کیا تو اُس وقت تک حکومت کو بھی کوئی خطرہ نہیں لگ رہا تھا لیکن نومبر کے 13 دن کے وفاقی دارالحکومت میں قیام کے دوران نا جانے مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ ایسا کیا لگا کہ کچھ نا کچھ ہونے کا ڈر بہت سوں کو ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مولانا کا کمال تھا کہ یا کسی اور کا کہ طاقتور کشتی کچھ ہچکولے کھانے لگی ہے، اس ناؤ میں موجود بیٹھے تو دل بہلانے کے لیے سب اچھا کا ورد کر رہے ہیں لیکن حقیقت جاننے کے لیے دوربین سے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔

اب دسمبر میں اعلی عدلیہ کی طرف سے کیے جان ’تاریخی‘ فیصلوں نے تو مزید ہلچل مچا دی اور ابھی سب کچھ سنبھلا نہیں ہے اور اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سال 2020 رواں برس کی طرح نہیں ہو گا۔

نئے سال کے نئے چیلنج تو ہوں ہی گے لیکن 2019 میں سامنے آنے والے قانونی مسائل کو بھی حل کرنا ہو گا۔

اب حکومت کو دیکھنا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی سزائے موت سے متعلق خصوصی عدالت فیصلے پر فوج کے غصے کو کیسے ٹھنڈا کیا جائے اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینگشن کا معاملہ کیسے سلجھایا جائے لیکن یہ سب کچھ ابھرتے سیاسی مسائل کے علاوہ ہو گا۔

سب سے بڑا سوال تو ہے ہی یہی کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت ایسا کر سکے گی کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے اسے کچھ آگے بڑھنا ہو گا، حکومت آگے بڑھنے اور جھکنے کو ہتک ہی سمجھتی رہی ہے لیکن اب آگے بڑھنے کے لیے سیاسی جماعت کی طرح ہی کچھ کرنا ہی ہو گا۔

تمام تر خدشات کے باوجود عرض تو یہ ہی کی جا سکتی ہے کہ 2019 جب رخصت ہو رہا ہے تو پرانی روش کو بھی جانیں دیں اور ہندسے بدلنے سے آگے بڑھنے کے عمل کا بھی آغاز کر دیں ورنہ یہ خیال ضرور رکھیں آئندہ سال انیس نہیں، بیس ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ