اتفاقیہ یا  طے شدہ: ٹرمپ بہرحال جنگ شروع کر رہے ہیں

کیا یہ ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے کیا؟ یا یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کے لاحاصل نتائج کے بارے میں امریکہ کے خبطی صدر نے سوچا ہی نہیں۔

اس سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوں گے تو کیا ٹرمپ یہ انتخابات جیتنا نہیں چاہیں گے؟(اے ایف پی)

کیا یہ اتفاقیہ جنگ ہو گی یا پھر اس کی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی؟ ہم سب کہتے رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک چھوٹی سی چنگاری جنگ کی بڑی آگ کا باعث بن سکتی ہے لیکن یہ تو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح سے سیدھا شہہ رگ پر وار کر دیں گے۔

جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بلا شبہ ایران کے دل میں تلوار پیوست کرنے کے مترادف ہے اور یہ وار کس کی طرف سے کیا گیا؟

کیا یہ ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے کیا؟ یا یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کے لاحاصل نتائج کے بارے میں امریکہ کے خبطی صدر نے سوچا ہی نہیں۔

ذرا سوچیے کیا ہوتا اگر امریکی فوج کے صف اول کے ایک یا دو جرنیلوں کو مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران دھماکے سے اڑا دیا جاتا، جب ابو مہدی المہندس عراق میں ایرانی مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے۔

اس کے نتیجے میں ایران پر فضائی حملے کیے جاتے، ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا اور امریکہ ایران کا بیرونی دنیا سے رابطہ کاٹ دیتا۔

کیا گذشتہ جمعے کو امریکی ٹھیکے دار کی ہلاکت اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے گھیراؤ جلاؤ کو اتنے بڑے پیمانے کے حملے کے لیے جواز مانا جا سکتا ہے؟

جنرل قاسم سلیمانی ایران کی طاقتور شخصیات میں سے ایک تھے اگرچہ ان کی زیرقیادت انقلابی گارڈز کی القدس فورس اتنی بھی موثر نہیں تھی جتنا ایران اس کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا ہے۔

ان کے ساتھی کمانڈرز کے مطابق جنرل سلیمانی نے شام میں القدس فرنٹ لائن پر بہت سے خطرے مول لیے جبکہ ان کے ماتحت فوجی میدان جنگ میں ان کی بہادری کے معترف تھے، لہٰذا ان کے مارے جانے کا خطرہ ہر وقت موجود تھا لیکن بغداد کا بین الاقوامی ہوائی اڈا وہ آخری جگہ ہو سکتی تھی جہاں کسی کو بھی امریکی ڈورن حملے کی توقع تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ نے اسی جگہ پر جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کو بھون ڈالا۔

یہ پہلی بار نہیں تھا جب امریکہ نے عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہو۔ حال ہی میں یہ امریکی فورسز کا معمول بن چکا تھا بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل شام اور لبنان میں حملے کرتا ہے۔

 لیکن امریکہ نے حال ہی میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو شام میں ایک اسی طرح کی کارروائی میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو ایران کا بھی سب سے بڑا دشمن تھا۔ ایرانی یقیناً البغدادی کی ہلاکت پر خوشی سے نہال ہو گئے ہوں گے۔

امریکہ کافی عرصے سے اس قسم کے قتل یا ’ٹارگٹ کلنگ‘ میں ملوث رہا ہے جیسا کہ اسرائیل اس عمل کو ’اپنی مرضی کے وقت پر دشمن کا صفایا‘ قرار دیتا ہے۔

 اسامہ بن لادن امریکہ کا پہلا، البغدادی دوسرا اور جنرل سلیمانی تیسرا بڑا ہدف تھا۔ اسرائیل بھی غزہ میں حماس کی قیادت کو ایسے ہی حملوں میں نشانہ بناتا ہے، پھر بھی ان لوگوں کو اتنا ہی اہم سمجھنا آسان ہے جتنا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ شام میں ایرانی فورسز کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ شام میں انقلابی گارڈز اور القدس کے 10 ہزار فوجیوں کی موجودگی سراسر مبالغہ آرائی ہے۔ ایک وقت میں ان کی تعداد لگ بھگ دو ہزار بتائی جائے تو اسے درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ایرانی خفیہ ایجنسی کے کارندے پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن وہاں امریکی ایجنٹس بھی تو ہیں۔

غضنفر رکن آبادی کو بیروت میں ایران کا سب سے سینیئر انٹیلی جنس رکن مانا جاتا ہے جو وہاں بطور سفیر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ شام اور حزب اللہ کے بارے میں ان سے بہتر معلومات کس کے پاس ہو سکتی تھیں؟

انہیں 2014 میں تہران واپس بلا لیا گیا تھا۔ ان کو ہلاک کرنے کی کوششیں بھی کی گئی تھیں۔

اس سے کچھ ہی عرصہ قبل سنی شدت پسندوں نے مبینہ طور پر سعودی عرب کی پشت پناہی سے ان کے سفارت خانے پر حملہ کیا تھا جس سفارت خانے کے عملے کے 23 افراد، حزب اللہ کے محافظ اور عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ رکن عبادی بچ نکلے تھے، تاہم ان کی سکیورٹی ٹیم کے سربراہ مارے گئے تھے۔ لیکن 2016 میں مکہ میں وہ حج کے لیے گئے تو اسی دوران 2300 کے قریب افراد بھگدڑ اور بلوے میں مارے گئے، جن میں 464 ایرانی بھی شامل تھے۔ ایران نے اس کا الزام سعودی حکومت پر لگایا۔ ان کی نعش کو ایران واپس آنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ ایک ایرانی عہدے دار کے مطابق ان کے تمام اعضا نکال لیے گئے تھے۔ اس کی وجہ کبھی معلوم نہ ہو سکی۔

لیکن مشرق وسطیٰ میں بطور انٹیلی جنس رکن کام کرنا ہمیشہ سے جان جوکھم والا کام رہا ہے۔

حزب اللہ کے سٹیلائٹ گروپ ’اسلامک جہاد‘ جس نے بیروت میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف ولیم بکلی کو قتل کیا تھا اور ان کا مبینہ قاتل عماد مغینہ یا قتل کا حکم دینے والا شخص 2008 میں دمشق میں ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا۔

1983 میں ایک خودکش حملہ آور نے بیروت میں امریکی سفارت خانے کے سامنے بارود سے بھرا اپنا ٹرک اڑا دیا جس کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں سی آئی اے کے بیشتر ایجنٹوں کا صفایا ہو گیا تھا۔

اور ہاں ایک اور بات تو بھول گیا۔ اس سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوں گے تو کیا ٹرمپ یہ انتخابات جیتنا نہیں چاہیں گے؟ اور جنرل سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت سے رپبلکنز کو فائدہ نہیں پہنچے گا؟

ایران ہمیشہ اپنی بے توقیری اور خود پر حملے کا وقت آنے پر بھرپور جواب دیتا ہے۔ کیا آپ کو ’ایڈرین دریا-1‘ اور ’دی سٹینا امپیرو‘ نامی دو آئل ٹینکرز یاد ہیں؟ اب تو معاملہ ذاتی نوعیت کا بن چکا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر