لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے پاکستان میں لاپتہ افراد کی وکالت کرنے والے ایڈووکیٹ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف نے سماعت کے دوران فوجی حکام کو ہدایت کی کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو گذشتہ دنوں باوردی افراد کوئی وجہ بتائے بغیر راولپنڈی کی عسکری کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
انعام الرحیم کے اہل خانہ کی جانب سے راولپنڈی میں ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ جب کہ ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے بھی رجوع کیا گیا، جس پر عدالت عالیہ نے وزارت دفاع سے جواب طلب کیا تھا۔
دو جنوری کو سماعت کے دوران وزارت دفاع کے حکام نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔
جس پر کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ وزارت دفاع یا کوئی بھی ادارہ ان کے موکل کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کون ہیں؟
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم پاکستان میں گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کے لیے جانے جاتے ہیں، جب کہ وہ فوج سے متعلق مقدمات کی بھی پیروی کرتے رہے ہیں۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم نے سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
جب کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ کو آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم کرنے والے بھی یہی کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم تھے۔
یاد رہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے استفسار پر اٹارنی جنرل سمیت حکومتی وکلا میں سے کوئی بھی آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم نہیں کر سکا تھا۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم 2007 میں لیفٹننٹ کرنل کے عہدے سے فوج سے ریٹائر ہوئے۔ یہ وہی سال تھا جب انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان کا شمار جنرل مشرف کے ناقدین میں ہوتا تھا۔
ان کا آخری مقدمہ عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے حیثیت سے تعیناتی کے خلاف تھا۔