کیا پاکستانی معیشت واقعی 2020 میں مضبوط ہو گی؟

وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر خزانہ خفیظ شیخ نے 2020 کو ملکی معیشت کی مضبوطی کا سال قرار دیا ہے لیکن اقتصادی ماہرین ان سے کتنا اتفاق کرتے ہیں؟

پاکستان میں سرمایہ کاری کی آمد کے اعلان سے بھی حکومت کو کچھ امید ملی ہے(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مشیر خزانہ اور ریوینیو ڈاکٹر خفیظ شیخ نے 2020 کے آغاز میں امید ظاہر کی ہے کہ رواں سال پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرے گا اور ملک معاشی استحکام حاصل کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر چل پڑے گا۔ 

پاکستان میں سرمایہ کاری کی آمد کے اعلان سے بھی حکومت کو کچھ امید ملی ہے۔

حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النیہان نے پاکستان میں چھوٹے کاروبار کے فروغ کے لیے 20 کروڑ ڈالرز کے فنڈز کا اعلان ہے۔

ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2.4 فیصد رہنے کی توقع ہے اور مالی سال 2020 میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ تاہم 2021 میں مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہو گی جبکہ معاشی ترقی کی شرح میں اضافے کی بھی امید ہے۔ 

یہ دعویٰ کتنا صحیح ہے؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین معاشیات سے رابطہ کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی امور پر موجودہ حکومت کے سابق مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے حکومتی دعوؤں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ابھی پاکستان کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اس سے موجودہ سال میں مزید بہتری کی امید کی جا سکے۔

انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ بہتری کے دو اعشاریے ہوتے ہیں، یا تو آمدن بڑھ جائے یا اشیا کی قیمتیں کم ہو جائیں۔

انھوں نے سوال کیا کہ آیا وزیر اعظم بتا دیں کہ اس سال عوام کی آمدن بڑھنے والی ہے یا روز مرہ استعمال کی اشیا مثلاً سبزی، بجلی، گیس اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں کم ہونے والی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان دونوں صورتوں میں سے کچھ نہیں ہو رہا تو پھر بہتری کا تیسرا تو کوئی طریقہ نہیں۔

فرخ سلیم نے کہا کہ سابقہ حکومت کے آخری سال میں معاشی ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی لیکن اس کے بعد ترقی کی شرح میں بتدریج کمی آئی اور حالیہ معاشی ترقی کی شرح کم ہو کر 2.4 فیصد رہ گئی ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر انیس محمود نے بتایا کہ جب تک انڈسٹری کی ترقی کے لیے کام نہیں ہو گا ملکی معیشت کو فائدہ نہیں ملے گا۔

انھوں نے کہا کہ اگر قوت خرید ہی نہیں تو عام آدمی کے گھریلو خرچ پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کے بقول: ’حکومت اگر واقعی چاہتی ہے کہ رواں برس معیشت ترقی کرے تو لوگوں کی قوت خرید بڑھانے کے لیے آمدن کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم اپنی اس اہم خاصیت پر کام نہیں کر رہے۔ پاکستان زراعت سے کما سکتا ہے لیکن اس سیکٹر میں اتنا کام نہیں کیا جا رہا جتنا کرنا چاہیے۔‘

رواں برس معاشی ترقی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پانچ چھ ماہ تو حالات تبدیل ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ پاکستان کی معیشت پر خطے کی سکیورٹی کی صورت حال بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اگر مشرقی سرحد یا خلیجی ممالک میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو معیشت کے چلتے پہیے کی رفتار سست ہو جائے گی۔‘

معیشت اور فنانس امور کے ماہر صحافی اشرف ملخم نے پاکستانی معیشت کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ 20 برس سے پاکستانی معیشت اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ وقتی انتظامات کیے اور عارضی پراجیکٹس سے معیشت کو فائدہ پہنچایا لیکن جب پراجیکٹ ختم تو فائدہ بھی ختم ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی رئیل فیکٹر ڈویلپمنٹ پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے معیشت کو استحکام نہیں مل سکا۔

اشرف ملخم کے مطابق اکتوبر 2016 میں آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہونے پر اندازہ ہو گیا تھا کہ 2018 یا 2019 میں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ 

حکومتی دعوؤں سے متعلق انھوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے کچھ اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ کم ہوا ہے، درآمدات کم کر کے اور کچھ برآمدات بڑھا کر تجارتی خسارہ کم کیا ہے، جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس کے علاوہ پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے ماحول کو بہت بہتر کیا گیا ہے۔ این او سی اور نیب کے معاملے میں بھی کاروباری حضرات کو چھوٹ دی گئی ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ کاروبار کریں اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ یہ کچھ اقدامات ہیں جن کی بنیاد پر حکومت توقع کر رہی ہے کہ 2020 میں بہتری آئے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت