پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جب سے نئی حکومت قائم ہوئی ہے بیوروکریسی اور چیف ایگزیکٹوپنجاب یعنی وزیراعلیٰ آفس کے درمیان کوئی مثالی تعلق اور تعاون دیکھنے میں نہیں آیا۔
یہ تاثر اس لیے بھی وقت کے ساتھ مضبوط ہوتاجارہاہےکہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران کئی بار اعلیٰ اور نچلی سطح تک بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی جاتی رہی ہے۔
موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی کچھ عرصہ قبل ہونے والی تعیناتی پر یہ خبریں سامنے آئیں کہ انہیں وفاق کی جانب سے پنجاب میں کارکردگی کوبہترکرنے کے لیے مقررکیاگیاہے اور اب دوبارہ یہ اطلاعات منظر عام پر ہیں کہ بیوروکریسی کے نئے سیٹ اپ کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اختیارات محدودہونے پر پھرسےاختلافات سراٹھانے لگے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیااس بار بھی کیا بیوروکریسی تبدیل ہوگی یا ایوان وزیر اعلیٰ میں تبدیلی آسکتی ہے؟ ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور بیوروکریسی میں بہترین تعلقات ہیں اور دونوں مل کر گڈ گورننس کی کوشش میں مصروف ہیں۔
پنجاب میں انتظامی صورتحال اور حکومتی موقف:
پنجاب میں جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے اس وقت سے ہی انتظامی لحاظ سے ہی حکمران جماعت کو چیلنجز کاسامناہے۔ مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے چیف سیکرٹری کے لیے تین بار تبدیلی ہوئی جب کہ آئی جی پنجاب بھی چوتھی مرتبہ تبدیل کیے گئے ہیں لیکن اس بار بھی صورتحال قابو میں دکھائی نہیں دے رہی۔
اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے رابطہ کیاگیااور ان سے پوچھاگیاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب اوربیوروکریسی کے درمیان اختلافات کی کیا وجوہات ہیں لیکن انہوں نے مصروفیت کا کہہ کر اس معاملے پر کوئی رائے دینے سے اجتناب کیا۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ انہیں وزیر اعظم نے تعینات کیاہے تاکہ پنجاب میں گورننس بہتر کی جا سکے۔ لہذا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنے لیڈر کے تعینات کیے گئے افسر سے کیسے تعلقات خراب کر سکتے ہیں؟‘
انہوں نے کہاکہ ’بعض سیاسی معاملات پر وزیر اعلیٰ کو پارٹی اراکین اور اتحادیوں کے مسائل سے متعلق سفارش کرنا پڑتی ہے تو چیف سیکرٹری میرٹ کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے جس پر وزیر اعلیٰ بھی زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے۔‘ مسرت چیمہ کے مطابق ’وزیر اعلیٰ پہلی بار اقتدار میں آئے ہیں اس لیے ان کے کسی افسر سے پرانے تعلقات نہیں لہذا جو افسر پارٹی قیادت بہتر سمجھتی ہے ان کی تعیناتی وزیر اعلیٰ کر دیتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بیوروکریسی اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ اور بیوروکریسی میں اختلاف کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
سینئر صحافی تجزیہ کارعمران یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے چیف سیکرٹری میجرریٹائرڈ اعظم سلمان اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اعتماد میں لیے بغیر تعینات کیے گئے ہیں اس لیے وہ اپنے انداز میں کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی سفارش پر کسی افسر کی تقرری یاتبادلہ نہیں ہورہاجس سے وزیر اعلیٰ ناخوش ہیں۔ انہوں نے دعوی کیاکہ واقفان حال کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ہے جس کی وجہ سی ایم ہاؤس میں اہم فائلیں روک کر کام میں رکاوٹ بتائی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران یعقوب کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ ملاقات کے دوران چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی شکایات بھی کیں لیکن ان کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا کیونکہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے پنجاب کا نیا سیٹ اپ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد میں لیے بغیر بنایاگیاہے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو اس بار بیوروکریسی کی بجائے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے عہدے پر قائم رہنا مشکل ہوسکتاہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کے بیانات کے مطابق بھی پنجاب حکومت اچھے طریقے سے ڈیلیور نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مجموعی طور پر دباؤ کا سامنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں انہوں نے کہا تھاکہ پنجاب کی حکومت نہ تو سیاسی حصہ ڈلیور کر رہی ہے اور نہ ہی انتظامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی کارکردگی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا 350 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے جس میں سے صرف 77ارب روپے ریلیز ہوئے۔ پنجاب حکومت سے صوبائی سطح پر کچھ ہو رہا ہے نہ اضلاع کو فنڈز منتقل کیے جا رہے ہیں۔