کیا بزدار کا کلہ واقعی مضبوط ہے؟

ایک فارمولا جو عرصے سے استعمال ہو رہا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ پلاٹ وہی رہے، کہانی بدل بھی سکتی ہے۔

 وسیم اکرم پلس کے گن گانے والوں کو اب ان کی خرابیاں نظر آنے لگی ہیں (سوشل میڈیا)

سید یوسف رضا گیلانی، محمد خان جونیجو کی حکومت میں نوجوان وزیر تھے۔ گیلانی کو وزارت سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا جب وزیر اعظم جونیجو اور پیر صاحب پگارا کو نواز شریف سے شکایت ہونے لگی۔

جنرل ضیا الحق کو بھی شبہ ہوا کہ نواز شریف یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ وہ اسمبلی میں اکثریت کے بل بوتے پر وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں اور یہ عہدہ کسی کا احسان نہیں بلکہ ان کا استحقا ق ہے۔ جنرل ضیا نے دل کی بات پیر صاحب پگارا کے سامنے رکھی، جس پر پیر صاحب پگارا نے جنرل ضیا کو یقین دلایا یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، نواز شریف راہ پر آجائیں گے۔ 

پیر پگارا نے اپنے رشتہ دار یوسف رضا گیلانی کا ذمہ لگایا وہ پنجاب جائیں اور ارکان پنجاب اسمبلی کے سامنے خود کو وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار ظاہر کرنا شروع کر دیں۔

یوسف رضا گیلانی وزیر ریلوے تھے۔ ایئرپورٹ اور ریلوے سٹیشن آتے جاتے درجنوں ایم پی ایز نے ان کا استقبال کرنا شروع کر دیا۔ پیر پگارا منصوبے کے خالق اور بادشاہ گر تھے، ان کے اشاروں پر نمایاں ایم پی ایز نے بھی استقبالیہ ڈیوٹی دینا شروع کر دی۔

باقی ایم پی ایز کو بھنک پڑی تو وہ بھی گیلانی کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ہر طرف یہ افواہ خبر بن کر پھیل گئی کہ وفاقی حکومت گیلانی کو وزیراعلیٰ پنجاب دیکھنا چاہتی ہے۔ بات پھیلنے پر بڑے بڑے لوگوں نے بھی گیلانی سے رابطے شروع کر دیے۔

جنوبی پنجاب کے ایم پی ایز کی بڑی تعداد گیلانی گروپ میں آ گئی۔ کہا جاتا ہے چوہدری پرویز الٰہی اور منظور وٹو جیسے بڑے نام بھی گیلانی کے رابطے میں آ گئے۔ گیلان نے پیر پگارا کو پیغام بھیجا کہ بغاوت ہو گئی ہے اب بتائیں وزیراعلیٰ کس کو اور کب بنانا ہے؟

نواز شریف کو بھی خبر ہو گئی اور انہوں نے اسلام آباد جا کر جنرل ضیا سے ملاقات کر لی اور گلے شکوے جاتے رہے۔ اس ملاقات کے بعد جنرل ضیا نے بیان دیا نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم جونیجو نے بھی بیان جاری کر دیا کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ پیر پگارا جو اس بغاوت کے سرپرست تھے، ان کا بیان بھی آ گیا نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا جس کی میں نے سلائی کر دی ہے۔ 

ان بیانات کے بعد باغی گروپ تتر بتر ہو گیا۔ گیلانی سمیت سب کو احساس ہو گیا کہ انہیں استعمال کیا گیا ہے۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا کی کتاب ’ایک سیاست کئی کہانیاں‘ کے مطابق گیلانی بجھے دل کے ساتھ پیر پگارا سے ملنے گئے اور شکوہ کیا کہ مجھے استعمال کیا گیا۔

پیر پگارا نے انتہائی رسان سے جواب دیا، ’بچے، یہ سیاست ہے۔ نواز شریف، جنرل ضیا کو آنکھیں دکھا رہا تھا، میں نے جنرل ضیا کو سب ٹھیک کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ہم نے ایسے بندے کا انتخاب کرنا تھا جسے نواز شریف کے خلاف استعمال کر سکیں۔ میری نظر تم پر پڑی۔ تمہارا ملتان کے سیاسی خاندان سے تعلق ہے، میرے رشتہ دار ہو۔ اس لیے ایم پی ایز کو یقین دلانا آسان تھا کہ تم وزیراعلیٰ بن سکتے ہو۔ میرا اندازہ غلط ثابت نہیں ہوا۔ تم نے بھی مجھے مایوس نہیں کیا۔‘

یوسف رضا گیلانی نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا، ’تو آپ نے مجھے استعمال کیا؟‘

پیر پگارا مسکرائے اور بولے، ’جی ہاں، میں نے آپ کو استعمال کیا!‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج ایک بار پھر پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کی افواہیں گردش میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دو انتہائی قریبی ساتھی عثمان بزدار کی کابینہ سے ہٹائے جا چکے ہیں۔ شہباز گل کی نجی محفلوں میں گفتگو کے بعد پنجاب میں افواہوں کا بازار گرم ہوا۔

شہباز گل کا اعتماد بھی دیدنی تھا۔ بعد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد شہباز گل کو پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے جسے بزدار پسند نہیں وہ پارٹی چھوڑ دے۔ شہباز گل کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہی تھا عثمان بزدار کا کلہ مضبوط ہے۔ 

اس پریس کانفرنس کے چند ہی دن بعد شہباز گل کو کابینہ چھوڑنا پڑی۔ اب خبریں ہیں انہیں وفاق میں کوئی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایک طرح سے انہیں پنجاب بھی چھوڑنا پڑے گا۔

اب اس کہانی میں کون استعمال ہوا اور کس نے استعمال کیا، اس کا ثبوت تو آنے والے دنوں میں ملے گا لیکن اگر شہباز گل کو وفاق میں کھپایا جاتا ہے تو یہ اشارہ ہو گا کہ شہباز گل بھی کسی ڈیوٹی پر تھے۔

اگر شہباز گل کی کوئی ڈیوٹی وفاق کی طرف سے لگی تھی تو یہ ایک اور اشارہ ہو گا۔ ’وسیم اکرم پلس‘ کو ایک سخت وارننگ دی گئی ہے کہ وہ صوبے میں گورننس کے معاملات بہتر بنائیں ورنہ اس بار تو صرف ڈرایا گیا ہے، اگلی بار گیم الٹ جائے گی۔

اس سے پہلے پنجاب میں پولیس تشدد اور ہلاکتوں کی ویڈیوز ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی گئیں۔ اب بھی یہ معاملہ سرد نہیں پڑا بلکہ اس کا رخ براہ راست پنجاب حکومت اور عثمان بزدار کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔

کبھی وزیر اعلیٰ کے لیٹر ہیڈ پران کے بھائی کا لکھا رقعہ منظر عام پر آتا ہے تو کبھی ان کے کسی عزیز کی پوسٹنگ اور ترقی کے بارے میں غیرمصدقہ اطلاعات سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں۔

تحریک انصاف کے ترجمان تصور کیے جانے والے میڈیا پرسنز کی توپوں کا رخ بھی اب پنجاب حکومت کی طرف ہے۔ وسیم اکرم پلس کے گن گانے والوں کو اب ان کی خرابیاں نظر آنے لگی ہیں۔ 

تحریک انصاف کے اندر جوڑ توڑ تو چل رہا ہے، مجموعی منظرنامہ بھی اب یک طرفہ طور پر حکومت کے حق میں نہیں رہا۔ میڈیا کو مثبت رپورٹنگ کا کہنے والے بھی اب پہلے جیسی مداخلت کرتے دکھائی نہیں دیتے۔

اعلیٰ عدالتی شخصیات کے بیانات اور سیاسی انجینیئرنگ کے لیے احتساب کی باتیں بھی موڈ اور ہوا کا رخ بدلنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ ایک سال سے زائد کے عرصہ میں تبدیلی سرکار کی کارکردگی کسی کے لیے متاثر کن نہیں رہی بلکہ ان کے ووٹر اور انہیں آگے لانے والے، دونوں طبقات ہی مایوس نظر آ رہے ہیں۔ 

دسمبر کے آخری ہفتے سے منظرنامہ واضح ہونا شروع ہو جائے گا۔ اب عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی گراؤنڈ پر کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے۔

وفاقی حکومت کے کرتا دھرتا اب تک خود کو کنٹینر اور بڑھکوں سے باہر نہیں نکال پائے۔ مسلم لیگ ن کو بھی ریلیف ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ مریم نواز کے پارٹی عہدے کے خلاف درخواست کا مسترد ہونا، ملاقات کے دن سے ہٹ کر نواز شریف سے قریبی رفقا کی طویل ملاقات اور صلاح مشورے، نواز شریف کو ریلیف نہ دینے کے حوالے سے آئے دن وزیراعظم کے بیانات، یہ سب وہ اشارے ہیں جن میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

ستمبر کو ملکی سیاست میں ہمیشہ ستم گر کا نام دیا جاتا ہے اور دسمبر کو سیاسی گرمی کا نکتہ عروج، لیکن مارچ کے لیے شیخ رشید جیسے سیاست دان کوئیک مارچ بھی کہتے آئے ہیں۔

ستمبر کی ستم گری شروع ہو چکی۔ احتساب پر سیاسی انجینیئرنگ کا شائبہ، کپتان کی ٹیم میں پھیلی افراتفری دسمبر کی سیاسی گرمی کا نقطۂ آغاز ہے اور حالات یوں ہی رہے تو کوئیک مارچ کی نوبت آ سکتی ہے۔

جونیجو دور میں یوسف رضا گیلانی کو پیر پگارا نے نواز شریف کو راستے پر لانے کے لیے استعمال کیا تھا لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار پلاٹ ایک جیسا ہو، بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔


یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر